کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 175
)ضروری ہے (یعنی کہ ) وہ واجب بنفسہ ہے یا لغیرہ اور اس کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ (دونوں صورتوں کا انکار کرتے ہوئے )یہ کہے کہ وہ نہ تو واجب نفسہ ہے اورنہ لغیرہ، اس لیے کہ قدیم بنفسہ اگر واجب بنفسہ نہ ہو تو وہ ممکن (حادث )ہوگا اور غیر کی طرف محتاج ہوگا پس اگر وہ حادث ہوتو قدیم نہیں ہوگا اور اگر قدیم بغیرہ ہو تو قدیم بنفسہ نہیں ہوسکتاحالانکہ یہ بات تو پہلے سے مفروض ہے کہ وہ قدیم بنفسہ ہے پس یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ قدیم بنفسہ ہو لہٰذاواجب بنفسہ ہو۔اور رہا قدیم لغیرہ؛ تو اکثر عقلاء یہ کہتے ہیں کہ یہ بات ممتنع ہے کہ کوئی شے کسی فاعل کے سبب قدیم ہو جائے اور جس نے یہ بات ممکن قرار دی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے اس مُوجِب کے قدم کی وجہ سے قدیم ہے جو خود واجب نفسہ ہے پس اس کے فاعل کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کو وجود دے پس وہ علتِ موجبہ ازلیہ ہوئی اس لیے کہ اگر وہ اس کے لیے مُوجِب نہ بنے بلکہ اس کا وجود اور عدم دونوں جائز ہوں اور دونوں باتیں یعنی وجود اور عدم ممکن ہونا تو منتفی (ناپید)ہے اس کے حق میں تو عدم ہی متعین ہے لہٰذا اس کا عدم واجب ہوا اور عدم کے وجود کے ساتھ اس کا وجود ممتنع ہوا چہ جائیکہ وہ قدیم بنے پس جو چیز موجود بنفسہ نہ ہو اور نہ قدیم بنفسہ ہو جب ازل میں اس کے لیے ایسا سبب نہیں ہے جو اس کے وجود کے لیے مُوجِب ہو تو اس کا عدم ہی لازم ہوا اس لیے کہ مؤثِّر تام جب حاصل اور موجود ہوتا ہے تو اثر (وجود میں آنا )بھی اس کے ساتھ لازم ہوتا ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس کی شان کے زیادہ مناسب موثر سمجھنا ہے بہ نسبت عدمِ تاثیر کے (اگر چہ وہ بھی ممکن ہے )تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک باطل مقدمہ ہے جیسے ماقبل میں گزرا اور تم تو اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہو اور وہ لوگ جنھوں نے اس کی صحت کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی تمہارے باطل قول کے قائل نہیں پس کسی نے بھی ان دو نوں باطل اقوال جمع نہیں کیا ۔
ہم تواستدلال کے مقام میں ہیں پس اگر تم کہو کہ ہم یہ بات علی طریق الالزام اس شخص کو کہتے ہیں جو اس کا قائل ہو مثلاً جبریہ ، قدریہ اور قدریہ میں سے وہ لوگ جو قادرِ مختار کا بغیر کسی مرجح تام کے فعل کے وجود کو ترجیح دینے کے قائل ہیں تو ہم ان کو (جواب میں ) یوں کہیں گے کہ تم نے یہ کیوں کہا کہ اللہ تعالی فاعل ِ مختار ہے اور وہ اس کے باوجوداس کا فعل اس کے لیے لازم ہے تو تمہیں یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ فعل قدیم تو ممتنع لذاتہ ہوتا ہے اگر چہ یہ بات فرض کر لی جائے کہ فاعل غیر مختار ہے توکیاحال ہوگا اس صورت میں جب کہ فاعل مختار ہو (یعنی بطریق اولی فعل کا قدیم ہونا ممتنع لذاتہ ہونا ثابت ہوگا)تو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ قادرِ مختار کا فعل اس کی ذات کے مقارن ہونا ممتنع ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ترجیح تو صرف حدوث کے ساتھ ہی سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ممکن کے وجود کا عدم پرراجح ہونامعقول نہیں سوائے اس کے حادث ہونے کے وقت ،رہا وہ ممکن جو مجرد ہو بغیر حوادث کے تو ا س کا مفعول ہونا سمجھ نہیں آتا معقول نہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ توضرورت یعنی بدیہی طور پر معلوم ہے اور وہ کیا ہے کہ وہ ممکن کا اس طور پر ہونا کہ اس کا وجود ممکن ہو اس کے عدم کے بدلے