کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 172
ممتنع ہوا اس لیے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے مُوجِب اور علت کی قدم کے بغیر قدیم ہواور اس کے ساتھ اس کا حدوث بھی ممتنع ہے جس طرح کوئی ممکنِ ذہنی جو وجود اور قدم دونوں کو قبول کرتا ہو جس وقت اُس (کے وجود )کا مقتضی تام پایا جائے تو اس کا وجود واجب ہوتا ہے ورنہ پھر اس کا عدم واجب ہوتا ہے پس جس چیز کے وجود کو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو وہ موجود ہوتا ہے اور جس کو نہیں چاہتے وہ موجود نہیں ہوتا اور خارج میں تو صرف اور صرف وہی چیز ہے جس کا وجود واجب ہے خواہ بذاتِ خود ہویا کسی غیر کی وجہ سے یا پھر وہ اشیاء جن کا وجود بذاتِ خود ممتنع ہو یا کسی غیر کی وجہ سے ،اسی طرح ممکن کے قدم اور اس کے حدوث کا حال بھی ہے۔خارج میں تو صرف اور صرف وہی شے ہے جس کا قدم واجب ہے یا اس کا قدم ممتنع ہے پس جب اس کے قدم کا مُوجِب حاصل یعنی موجود ہوا خواہ وہ بذاتِ خود ہو یا اس کے غیر کی وجہ سے ہو تو وہ ممکن ہوگا لامحالۃ ورنہ تو پھر اس کا قدم ممتنع ہوگا اور دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ضرور لازم آئے گی :
یا اس کے عدم کا دوام یا اس کا حدوث پس اس کے حدوث کے امکان کے قو ل کے ساتھ یہ بات ممتنع ہوگی کہ علتِ موجبہ کو قدیم مانا جائے پس اس کا قدم بھی ممتنع ہوا پھر اس کے بعد یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس کا حدوث ممکن ہے باوجود اس امکان کہ وہ قدیم بھی ہو بلکہ جب اس کے حدوث کا امکان ثابت ہوا تو اس کے قدم کا امکان بھی ثابت ہوا اور اسی وجہ سے وہ تمام لوگ جنہوں نے بغیر کسی سببِ حادث کے حوادث کے حدوث کو ممکن سمجھا ہے وہ اس کے حدوث کے قائل ہیں اور جنہوں نے قدم کا کہا ہے تو ان میں سے کوئی بھی بغیر کسی سببِ حادث کے حوادث کے حدوث کے امکان کو نہیں مانتا اگرچہ یہ قول ایسا ہے کہ دل میں اس کی توجیہہ یوں آتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ حوادث کا حدوث بلا کسی سببِ حادث کے ممکن ہے کیونکہ ایسا فاعل جو قادرِ مختار ہے وہ اپنے دو مقدورں میں سے ایک کو دوسرے پربغیر کسی مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ عالم کو قدیم مانا جائے اس طور پر کہ اس مختار ذات نے بغیر کسی مرجح کے قدم کو ترجیح دی لیکن ہمارے علم کے مطابق یہ قول اپنے بدیہی البطلان ہونے کے ساتھ باتفاق عقلاء متروک ہے اس لیے کہ یہ دو متقدمتین پر مبنی ہے جن میں سے ہر ایک بدیہی طور رپرباطل ہے اگرچہ عقلاء میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے ان میں سے بعض کا التزام کیاہے پس ایسا شخص معلوم نہیں جس نے ان دونوں امورکا التزام کیا ہو،ایک یہ کہ فاعلِ مختار کا اس طرح ہونا کہ وہ اپنے دومقدورین میں سے کسی ایک کو بلا کسی سبب ِ مرجح کے ترجیح دے ،اس لیے کہ اکثر عقلاء یہ کہتے ہیں کہ اس بات کا فساد بدیہی طور پر معلوم ہے یا یہ بات قطعی ہے اور ضروری نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ قادرِ مختار کا اس طور پر ہونا کہ اس کا فعل اس کے ساتھ مقارن ہو اور وہ شیئاً فیشئاً رفتہ رفتہ کسی چیز کو وجود نہ دیتا ہو پس یہ بات یقیناً ایسی ہے کہ جمہورِ عقلاء اس کے قائل ہیں اس لیے کہ اس کا فساد بھی بدیہی طور پر اور قطعا ً معلول ہے بلکہ جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ فاعل کا مفعول اس کے مقارن نہیں ہو سکتا۔