کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 17
بہر کیف مشرقی اور مغربی اقوام نے صحابہ کی سیرت وکردار ان کے عدل وانصاف رفق وتدبّر اور راہ حق پر استقامت واستقلال سے اسلام کا سبق سیکھا اور اسی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی تصدیق ہوئی۔ ارشاد ہوتا ہے:
((خَیْرُالقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ))
’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو انکے قریب ہیں (تابعین)پھر وہ جو ان کے قریب ہیں (تبع تابعین)۔‘‘
امام ربّانی احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں یہ حدیث بروایت عبیدہ سلمانی قاضی کوفہ انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔[1] امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی کتاب نمبر ۶۲ باب اول میں یہ روایت حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔[2]عمران فتح مکہ کے دن عسکر نبوی میں قبیلہ خزاعہ کے علمبردار تھے ۔[3] امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔[4]
مذکورہ بالاحدیث نبوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک ہے۔ اسلام کو جو عزت وعظمت اور استقامت دور صحابہ ،تابعین وتبع تابعین میں حاصل ہوئی آئندہ ادوار میں نصیب نہ ہوسکی۔ اموی خلافت پر اس مبارک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ بنو عباس کے وہ اوّلین خلفاء جنھوں نے اموی ماحول میں تربیت پائی تھی اسی عہد میں شامل ہیں ۔ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ائمہ اسلام کا اتفاق ہے کہ تبع تابعین میں سے آخری شخص جس کا قول مقبول ہے وہ ہے جو ۲۲۰ھ تک بقید حیات رہا۔ اس کے بعد بدعات کا دور دورہ ہوا اور حالات بڑی حد تک بدل گئے ‘‘[5]
اس مبارک زمانہ کو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیر القرون‘‘ سے تعبیر فرمایا تھا۔ جو آپ کی صداقت کی زبر دست دلیل ہے۔یہ اسلام کازرّیں دور تھا ۔دین اسلام نے اس سے بڑھ کر نہ کبھی خیر وبرکت کا مشاہدہ کیا نہ اہل اسلام نے اس سے بڑھ کر کبھی عزّوشرف حاصل کیا نہ اس دور سے بہتر کبھی جہاد خالص دیکھا گیا نہ کرۂ ارضی کے دور افتادہ گوشوں تک کبھی دعوت اسلام اس وسعت کے ساتھ پہنچی ،اسی عصر وعہد میں حفاظ قرآن نے اکناف ارضی تک پہنچ کر لوگوں کو قرآن سے روشناس کرایا ۔نوجوان تابعین مختلف دیار وامصار میں پہنچ کر وہاں کے رہنے والے صحابہ سے حدیث نبوی کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔مباداکہ صحابی کی موت سے وہ احادیث بھی ناپید ہوجائیں جو ان کے سینہ میں محفوظ ہیں ۔پھر تبع تابعین کا زمانہ آیا۔ وہ ہر ایسے خطۂ ارضی میں پہنچے جہاں کبار تابعین
[1] مسند احمد (۱؍۳۷۸،ح:۳۵۸۳) ، صحیح بخاری۔ کتاب الشھادات۔ باب لا یشھد علی شھادۃ جور اذا اشھد (ح:۲۶۵۲)، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ،(ح:۲۵۳۳)۔
[2] صحیح بخاری۔ (ح:۲۶۵۱،۲۶۵۰)،صحیح مسلم (ح: ۲۵۳۵)
[3] الاصابۃ (۵؍۲۷)۔
[4] صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، (حدیث: ۲۵۳۶)
[5] فتح الباری ج۷ ص۴۔