کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 169
اگر یہ کہا جائے کہ عالم میں سے بعض ازلی ہیں جیسے کہ افلاک اور حرکات کا نوع اور بعض ازلی نہیں ہیں جیسے کہ اشخاص مثلاًانسان کے افراد زید ،عمرو ،ابو بکر وغیرہ تو کہا جائے گا کہ یہ تو کئی وجہ سے ان کے قول کے بطلان کو مستلزم ہے ۔ نمبر۲ :.... جب یہ بات ممکن ہوئی کہ وہ شیئاً فشیئاً(یکے بعد دیگرے )ذات حوادث کا فاعل ہے تو پھر یہ بات بھی ممکن ہوئی کہ اس کی ذات کے ماسوا سب کچھ حاد ث ہو پس عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کا نظریہ قول بلا دلیل ہے۔ دوسری وجہ :.... اس ذات کا یکے بعد دیگرے حوادث کو پیدا کرنا بغیر اس کے کہ اس کی ذات کے ساتھ کوئی ایسا سبب قائم ہو جواِس احداث کے لیے مُوجِب ہو تو یہ بات بالکل ممتنع ہے اس لیے (کہ جب پہلے سے یہ بات مسلم ہے کہ )اُس ذات کا حال اُس شے کے احداث سے پہلے ، اس کے بعد اور اس کے احداث کے دوران تینوں اوقات میں ایک طرح اور یکساں ہے تو یہ بات ممتنع ہو ئی کہ ایک خاص وقت اِس شے کے احداث کے ساتھ توخاص ہو اور دوسرا (وقت )نہ ہو بلکہ یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ وہ ذات کسی شے کووجود دے اور اسے پیداکرے۔ تیسری وجہ :....اگر اس بات کو ممکن مانا جائے کہ وہ کسی شے کو پیدا کرتا ہے بغیر کسی ایسے سبب کے پائے جانے کے جو اس کے احداث کا تقاضا کرے تو پھر یہ بات بھی ممکن ہو جائے گی کہ تمام حوادث کے لیے کوئی ابتداء ہو پس عالم میں کوئی بھی شے قدیم نہ ہوگی اور اگر اس کو ممکن نہ کہا جائے تو پھر ان کا یہ قول باطل ہوا کہ یہ حوادث پیدا ہوتے ہیں بغیر کسی ایسے سبب کے جو ان کے ساتھ قائم ہو۔ چوتھی وجہ :.... حوادث کا پیدا کرنا اگر بغیر کسی ایسے سبب کے جو ان کی ذات کے ساتھ قائم ہو،ناممکن قرار دیا جائے تو پھر ان کا قول باطل ہوجائے گا اور اگر وہ کسی ایسے سبب کی طرف محتاج ہوں جو ان کی ذات کے ساتھ قائم ہو تو پھر لازم آئے گا کہ وہ امور اس کے ساتھ دائماً قائم ہوں دھیرے دھیرے اور یکے بعد دیگرے پس وہ کبھی بھی فاعل نہیں بنیں گے مگر صرف اس صور ت میں جب وہ سبب پایا جائے لہٰذایہ ممتنع ہوا کہ اس ذات کے لیے ازل اور ابد میں کوئی مفعولِ معین ہو کیوں کہ ان حوادث کا ایک ایسی ذات سے صدور ممتنع ہے جو اُن کے اسباب پائے جانے کے بعد ان کو وجود دیتا ہے اس لیے کہ جو افعال اس واسطہ سے صادر کیے جاتے ہیں تو وہ صرف اور صرف یکے بعد دیگرے ہی موجودہو سکتے ہیں پس یہ بات ممتنع ہوئی کہ اس ذات کے لیے کوئی ایسا فعلِ معین ہو جو اس کے لیے لازم ہو،تو جب یہ بات ممتنع ہوئی تو یہ بھی ممتنع ہواکہ اس ذات کے لیے کوئی ایسامفعولِ معین ہو جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہو۔