کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 168
طرح کلابیہ ،اشعریہ اور کرامیہ کا قول ہے اور اس قول پر تو عالم میں کسی بھی چیز کا قدیم ہوناممتنع ہو جائے گا کیونکہ عالم میں ہرہر چیز کا حال یہ ہے کہ وہ حوادث کے ساتھ مقرون ہے بایں طور کہ ایک حادث سابق اور دوسرا مسبوق ہے چاہے ان سب کو جسم قرار دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ کچھ ایسے اقول اور نفوس ہیں جو اجسام نہیں ہیں پس یقیناً اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ حوادث کے ساتھ مقارن ہیں کیونکہ وہ فاعل ہیں اور وجود کومستلزم ہیں پس اگر ایسے حوادث کا وجود ممتنع ہوا جن کے لیے کوئی اول نہیں یعنی ازلی ہونا ممتنع ہوا تو یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ حوادث کے لیے کوئی ایسی علت پائی جائے جو اس کے وجود کومستلزم ہو چاہے اس کو ممکن کہا جائے یا واجب،اور اس تقدیر پر ارادہ قدیمہ اپنی مراد کے وجود کو مستلزم نہیں ہوگا لیکن یہ بات ضروری ہوگی کہ مراد ارادے کے بعدمتاخر وقت میں موجود ہو ۔ اگر یہ کہا جائے کہ حوادث کا دوام تو ممکن ہے اور یہ بات بھی کہ اس کے لیے کوئی ابتداء نہ ہو (یعنی ازلی ہوں ) تو جواب یہ ہے کہ: اس تقدیر پر تو یہ بات ممتنع ہو جائے گی کہ عالم میں کوئی شے قدیم اور ازلی بن جائے ۔ اور اس عموم میں افلاک ،عقول ،نفوس ،موادِ اصولیہ ،جوہر مفردہ ،یہ سب کے سب آئیں گے اس لیے کہ جو چیزبھی عالم میں قدیم اور ازلی ہو تو ضروری ہے کہ اس کا فاعل اس کے لیے مُوجِب بالذات ہو چاہے اسے علتِ تامہ کہا جائے یا مرجع تام کہا جائے گا یا اسے قادرِ مختار کہا جائے لیکن مُوجِب بالذات کا وجود ازل میں محال ہے کیونکہ وہ اس بات کومستلزم ہے کہ اس کا مُوجب اس کا مقتضی اور اس کا مراد بھی ازلی ہو اور یہ تو کئی وجوہ سے ممتنع ہے۔ نمبر ۱:.... کسی فاعل کا اپنے مفعولِ معین کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن ہونا اور ازل میں اس کے ساتھ موجود ہونا ممتنع ہے۔خاص طور پر کہ جب اسے اپنے ارادے اور اپنی قدرت کے ساتھ فاعل مان لیا جائے اس لیے کہ یقیناً ا سکا جو مقدورِ معین ہے اس کی فاعل کے ساتھ اس طور پرمقارنت کہ وہ اس کے ساتھ ازلی ہو ،یہ بالکل محال ہے بلکہ یہ بات تو محال اور ممتنع ہے ان امور میں بھی جو اس فاعل کی ذات کے ساتھ قائم ہیں کیونکہ بے شک اس کا ازل میں مراد ہونا ممتنع ہے اور جب ایسی چیزکا ازل میں مراد ہونا ممتنع ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے تو پس وہ چیزیں اور مفعولات جو اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہیں ان کا ممتنع ہونا تو بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ دوسری دلیل :.... اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ اس کی ذات علتِ تامہ اور مفعول کے لیے مُوجِب بالذات ہے تو یہ بات لازم آئے گی کہ وہ اپنے معلول کے ساتھ مطلقاً مقارن ہے پس عالم میں سے ہر شے ازلی بن جائے گی اور یہ تو بالکل محال ہے اور مشاہدہ اور اجماعِ عقلاء کے خلاف ہے۔ عالم میں سے بعض اشیاء کے ازلی ہونے اور بعض کے نہ ہونے کا قول کئی وجوہ سے اِن کے قول کے بطلان کو ثابت کرتا ہے ۔