کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 166
کیلئے اسباب مہیا کرنا ) ہے ،اورامداد ہے یعنی اس سے فیض جاری ہے اور اسی سے قبول کی صفت ہے اور وہی فاعل ہے قابل کا بھی ،مقبول کا بھی ،اور شرط اور مشروط کا بھی تو اس امرکا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کہا جائے کہ قوابل اور شروط کے اختلاف یا ان کے تعاقب (یکے بعد دیگرے ہونے )کی وجہ سے اس کا فعل اور فیض اور ا س کا احداث مختلف اور مؤخر ہو جائیں گے اسی لیے یقیناً یہ کہا جائے گاکہ قوابل اور شروط کے اختلاف اور ان کے تاخر میں جو قول ہے یہ تو بعینہ مقبول ،مشروط اور اختلاف اور اس کے تاخر کے قول کے مشابہ ہے پس وہاں پر کوئی ایسا سببِ وجودی نہیں پایا جاتا جو اس بات کا تقاضا کرے سوائے اس ذاتِ مجردہ کے جو ان کے نزدیک (مسلم )ہے اور وہی تو ان کے نزدیک علتِ تامہ ازلیہ ہے ،پس کیا یہ قول صریح عقل کے تقاضے سے بقیہ تمام اقوال سے نسبتاًزیادہ فاسد ہے یا نہیں ۔
اگر وہ کہتے ہیں کہ اس بات میں سبب صرف اور صرف یہی ہے اور یہ بات کہ ممکنات تو صرف اسی کو قبول کرتے ہیں تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ممکنات کے لیے اپنے (نفس الامری)وجود سے پہلے کوئی حقیقتِ موجودہ نہیں ہوتی جس کو اس امر کا سبب قرار دیا جائے کہ احد الوجودین میں سے ایک کا (دوسرے کو چھوڑ کر ) وجود کے ساتھ خصوصیت ہے لیکن اپنے وجود کے بعد یہ بات عقلاً سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی ممکن کسی غیر کے لیے شرط بن جائے اور غیر کے لیے مانع بن جائے جیسے احد الضدین کا وجود کیونکہ یقیناً ان میں سے ایک مانع ہوتا ہے دوسرے (کے نفس الامر)وجودسے اور لازم کا وجود وجودِ ملزو م میں شرط ہوتا ہے یعنی اس کے وجود کے ساتھ دوسرے کا وجود ضروری ہوتاہے؛بھلے وہ دونوں معاً وجود میں آئیں یا ایک وجود میں دوسرے سے مقدم ہو۔ اور ممکنات میں کسی شے کا وجود یقیناً فرض کر دیا جاتا ہے تو یہ بات کیسے معقول ہے کہ وہ دو ممکن جو جائز ہیں ؛واجب الوجود نہیں اور جن میں سے کوئی ایک بھی ابھی نہیں پایا گیا (یعنی نفس الامر میں موجود نہیں ہوا)ان میں سے ایک وہی ہے جس نے اس ذاتِ بسیطہ میں اس امرکوواجب کردیاکہ اس خاص چیز کو پیدا کرے اور دوسرے کو نہیں ۔ اور اس نے اس میں یہ قدرت پیدا کر دی کہ وہ اِس ممکن کو پیدا کرے اور دوسرے کو نہیں ؛ اور ایک کو قدیم بنا دے اور دوسرے کو نہیں ۔ باوجود یکہ وہ ذات ایک ہے اور بسیط ہے اور اس کی نسبت تمام ممکنات کی طرف یکساں ہے ۔
اگر کہا جائے کہ ممکن کی خود ماہیت ہی نے اس بات کو وجود دے دیا اس کے وجود نے نہیں تو کہا جائے گا کہ اس کا جواب دوطرح پر ہے ۔
ایک یہ کہ ماہیۃ مجرد ہ عن الوجودکا تصور اور اس کی سمجھ اُس علم میں آتی ہے جس کو وجودِ ذہنی کہا جاتا ہے نہ کہ وجودِ خارجی اور علم تو معلول کے تابع ہوتا ہے پس اگر ذاتِ فاعلہ کی طرف سے کوئی ایسا سبب نہ پایا جائے جو بغیر وجودکے ایک ماہیت کا دوسرے کیساتھ تخصیص کا تقاضا کرتا ہو بلکہ وہ ذات بسیطہ ہو یعنی وہ ذاتِ فاعلہ بسیطہ ہو