کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 165
اعتبار سے اور اپنی جوہر کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متماثل اور ایک جیسے ہوں ۔ بعینہ یہی بات اس قباحت کو مستلزم ہے کہ ایک جیسے احوالِ حادثہ میں سے بعض احوال کو بغیر کسی مخصص کے صفتِ احداث کے ساتھ مختص کیا جائے اور تحقیق یہ لوگ جس قباحت سے بھاگنا چاہتے تھے اس سے کئی گنا زیادہ قبیح میں پڑگئے بلکہ غیر متناہی حد تک ایک قبیح اور عقلی طور پر ممتنع (بات کو ماننے )میں مبتلا ہو گئے ۔ اگر کہا جائے کہ حادثِ اول کے حدوث نے اس ذات کو دوسرے حادث کے احداث کے لیے تیار کر لیا (یعنی اس میں استعداد پیدا ہو گئی )تو انہیں جواب میں کہا جائے گاکہ اس قادرِ مختار کی ذات ہی تو تمام حوادث کی علت ہے اور اس کے صفتِ احداث کی نسبت تمام حوادث کی طرف ایک ہی طرح ہے پس کیا وجہ ہے کہ یہ خاص حادث اس ذات کو دوسرے حوادث کے پیدا کرنے کے لیے تیار کرتا ہے اور اس کا وجود دوسرے حوادث کے احداث کے لیے سبب بنتا ہے باوجود یکہ یہ بات پہلے سے مسلم ہے کہ اس خاص حادث کاجس کو دوسرے حوادث کے احداث کے لیے سبب قرار دیا جا رہاہے ،اُس ذاتِ قادرِ مختار کے ساتھ کوئی اختصاص نہیں ہے ۔ یہ بھی ان سے کہا جائے گا کہ وہ ذات اس حادث کے لیے کیسے فاعل بنے گا بعد اس کے کہ وہ پہلے فاعل نہیں تھا اور یہ بات بھی ان سے پھر پوچھی جائے گی کہ یہ کیسے ہو سکتاہیکہ اس کا معلول اس ذات کو فاعل بنا دے حالانکہ پہلے وہ فاعل نہیں تھا اور یہ سب کچھ بغیر کسی ایسے فعل کے ہوگا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ یہ کہیں کہ اس ذات کے افعال مختلف ہوتے رہتے ہیں کیونکہ فعل کا اثر قبول کرنے والا محل ایک طرح نہیں ہوتا ،ایسے ہی (اثر انداز ہونے کے )شرائط اور استعداد بھی ایک طرح نہیں ہوتا اور اس حدوث کا سبب حرکاتِ فلکیہ اور اتصالات کوکبیہ ہیں ( ان کے اختلاف کی وجہ سے وہ حادث ہوتے ہیں )تو ان کو(جواب میں )کہا جائے گا کہ اگر یہ امر ممکن ہو اتو وہ اس صورت میں ممکن ہو گا کہ جہاں اعداد کا فاعل امداد کے فاعل کے علاوہ کوئی اورہو جیسے کہ سورج جو اپنے نور کو منتشر کرتا ہے تواس کا نورپورے عالم میں منتشر ہوتا ہے اور ایسے ہی اس کی حرارت اور اس کا فعل مختلف ہے اور اس کی تاثیر(حرارت ) کا کمال اس کے وقت ِ طلوع سے متاخر ہوتا ہے بوجہ اس کے کہ اس کے اثر (حرارت)کے قبول کرنے والی اشیاء مختلف ہیں (کچھ وہ ہیں جو جلدی اس کی حرارت کوجذب کر لیتی ہیں اور بعض وہ ہیں جو سست رفتاری کیساتھ قبول کرتی ہیں )اور اثر کو قبول کرنے والے اشیاء سورج کے فعل سے نہیں ہیں (یعنی وہ اس کے غیر ہیں اور اس کی حرارت سے حاصل شدہ نہیں )۔ اسی طرح یہ جس بات کا دعویٰ کرتے ہیں یعنی وہ عقلِ فعال جس کا فعل اوراس کا اثراس عالم میں اس کے قوابل کے اختلاف کی بنا پرمختلف ہوتا رہتاہے کیونکہ یقیناً اس کے قوابل اس کے حرکاتِ فلکیہ کے ساتھ مختلف ہوتے رہتے ہیں اور تمام افلا ک کی حرکات عقلِ فیاض سے صادر نہیں ہوتیں ،رہی وہ ذات جس سے اعداد (فعل