کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 164
کرتی ہے کہ اس سے کوئی بھی شے صادر اور حادث نہ ہو بعد اس کے کہ فعل معلول تھا اور اگر یہ نہ مانا جائے تو پھر تو حوادث کے لیے کوئی بھی فاعل نہیں ہوگا بلکہ وہ تو خود اپنے طور پر حادث اور وجود میں آئیں گے اور یہ بات بذاتِ خود ممتنع اور محال ہے۔ پس کسی ایسے موجِب بالذات یا فاعلِ مختار کوثابت کرنا جس کی مراد ازل میں اسکے ساتھ مقارن ہو یہ اس امرکو مستلزم ہے کہ حوادث کے لیے کوئی بھی فاعل نہ ہو اور یہ بات محال ہے۔
ابن سینا کاعقیدہ:
خاص طور پر ان لوگوں کا قول جو یہ کہتے ہیں کہ یہ پورا عالم ایک ایسے ذاتِ بسیطہ سے صادر ہے جس کے ساتھ کوئی صفت قائم ہے نہ کوئی فعل ،جس طرح ابن سینا اور اس کی طرح دیگرفلاسفہ کا خیال ہے کیونکہ یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ امورِ مختلفہ کسی ذاتِ بسیطہ سے صادر ہوسکتے ہیں اور علتِ بسیطہ تامہ ازلیہ مختلف معلولات کو وجود دیتی ہے اور یہ صریح عقل کی نظر میں امتناع کے اعتبار سے بہت اشداور قبیح قول ہے اور وہ اس کو عقول اور دیگر و سائط کے ذریعے جس طرح بھی ثابت کریں تو بے شک یہ ان کواس قولِ باطل سے خلاصی نہیں دیتا اس لیے کہ یہ وسائط مثلاً عقول ، غیر سے صادر اور پیداہوئے ہیں اور ان سے بھی غیر وجود پاتا ہے پس اگر یہ ہر اعتبار سے بسیط مانے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی بسیطِ ازلی سے وہ شے پیدا ہوجو حادث ہے ۔
اگر اس کے اندر اختلاف ہے یا اس کی ذات کے ساتھ کوئی حادث قائم ہے تو پس تحقیق ایسی صورت میں بھی مختلف اشیاء اور حوادث ایک بسیط ،تام اورازلی ذات سے صادر ہوئی ہیں اور یہ دو باتیں باطل ہیں پس یہ لوگ باجود یکہ اس کے قائل ہیں کہ عالم کا مُبدِع اور پیدا کرنے والا اس کے لیے علت ہے ،تعلیل کے حکم کی رعایت اور خیال رکھنے سے بہت دور ہیں اور یہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اس کی ذات بعض عالم کے لیے علت تامہ ازلیہ ہے جیسے افلاک اور وہ حوادث میں سے کسی شے کے لیے بھی علتِ تامہ ازلیہ نہیں بلکہ وہ توحوادث میں کسی شے کے لیے بھی علتِ تامہ بن ہی نہیں سکتا سوائے اس کے حدوث کے وقت کے کہ اس وقت وہ علت بن جاتا ہے بعد اس کے کہ وہ علت نہیں تھا حالانکہ یہ بات پہلے سے مسلم ہے کہ اس ذات کی حالت حادث کے حدوث سے پہلے ،وقتِ حدوث میں اور اس کے بعد تمام اوقات اور زمانوں میں ایک جیسی تھی پس کسی بھی وقت کواس کے حوادث کے ساتھ خاص کرنا اور اس خاص وقت میں اس کو ان حوادث کے لیے علتِ تامہ ماننا ایک ایسا امر ہے کہ اس کے لئے کسی مخصص کی ضرورت ہے ۔
جبکہ کوئی مخصِّص ثابت نہیں سوائے ذاتِ بسیطہ کے اور اس کی حالت اپنی ذات کے اعتبار سے ازلاً و ابداً ایک ہی طرح اور یکساں ہے تو یہ بات کیسے متصور ہو سکتی ہے کہ بلا کسی مرجح کے اس کے اوقات میں سے بعض اوقات اور زمانے مخصوص حوادث کے ساتھ خاص ہو جائیں باوجود یکہ اس ذات کے تمام احوال اپنی ذات کے