کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 163
بعض وجوہ یہاں ذکر کر دیے گئے ہیں ۔ اشعریہ ،کرامیہ اور ان کے موافقین کاعقیدہ: اگر یہ کہا جائے کہ ایسا ارادہ جو قدیم اور ازلی ہے یہ اپنے مراد کے مقارنت کو مستلزم نہیں لہٰذا واجب نہیں ہے کہ اس کا مراد بھی قدیم اور ازلی بن جائے اور یہ بھی تو ممکن نہیں کہ وہ حادث ہو کیونکہ اس کا حدوث بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا، کسی سببِ حادث کی طرف محتاج ہے جیسا کہ ماقبل میں گزرا اور اگر یہ بات ممکن ہو تو یہ کہا جائے کہ حوادث تو ارادہ قدیمہ ازلیہ کی وجہ سے حادث ہوتے ہیں یعنی بغیر کسی امر جدید کے حدوث اور تجدد کے وجود میں آتے ہیں جس طرح کہ اہلِ کلام میں سے بہت سے اس کے قائل ہیں مثلاًاشعریہ ،کرامیہ میں سے اور ان کے علاوہ دیگر جماعتوں میں سے اور ان کے موافقین میں سے جو کہ آئمہ کے اتباع ہیں یعنی امام مالک ،امام شافعی اور امام محمد رحمہ اللہ کے اصحاب اور یہ ان فلاسفہ کے قول کے لیے مبطل ہے جو عالم کے قدم کے قائل ہیں اس لیے کہ ان کی حجت کی بنیاد اس پر ہے کہ حوادث بغیر کسی سببِ حادث کے وجود میں نہیں آتے ہیں پس جب انہوں نے اس کے حدوث کو ایک ایسے قادرِ مختار ذات سے ممکن سمجھا جو بلا سبب اس کو وجود دیتا ہے یا یہ کہ ان کو انہوں نے اس کو ممکن سمجھا ارادہ قدیمہ ازلیہ کی وجہ سے تو ان کی بڑی دلیل باطل ہو گئی حالانکہ وہ لوگ اس کو ممکن اورجائز نہیں سمجھتے ۔ اور اس دلیل کی بنیاد اس پر ہے کہ اگر عالم میں سے کوئی شے قدیم ہوتی تو پھر یہ لازم آتا کہ وہ شے کسی ایسے مؤثر تام سے صادر ہوگی جو واجب الوجود ہے؛ چاہے اسے علت تامہ کہا جائے یعنی مُوجِب بالذات کہا جائے یا یہ کہا جائے کہ وہ قادرِ مختار ہے؛ اور اس کا اختیار کرنا ازلی اور اس کی مراد کے مقارن ہے۔ جبکہ یہ بات ممتنع ہے کہ وہ (مراد)ازل میں ہو اور یہ بات بھی ممتنع ہو کہ وہ ازل میں قادرِ مختار ہو اس طور پر کہ اس کے ساتھ اس کا مراد مقارن ہو چاہے اس کو علتِ تامہ کہا جائے یا نہ کہا جائے اور چاہے اسے مُوجِب بالذات کہا جائے یا نہ کہا جائے۔ بلکہ یہ بات تو ممتنع ہے کہ اس کے معین مفعولاتِ عقلیہ میں سے کوئی شے اپنے فاعلِ ازلی کے ساتھ زمان میں مقارن ہو اور اس امر کا ممتنع ہونا تو اگلے پچھلے سب عقلاء کے نزدیک عقلاً معلوم اور مسلم ہے۔ اور یہ امربھی ممتنع ہے کہ ازل میں وہ علت تامہ ہو یا مُوجِب بالذات ہو چاہے اسے قادر و مختار کہا جائے یا نہ کہا جائے۔ اس بات کی حقیقت اور اس کا راز یہ ہے کہ جو ذات اس طرح ہو (یعنی ازل میں اپنے معلولات کیلئے علۃ تامہ ازلیہ ہو )تو اس کے حق میں یہ بات لازم ہے کہ اس کا اثر اس کے مقارن ہو چاہے اسے معلول کہا جائے یا مراد کہا جائے یا موجَب بالذات کہا جائے یا اس کومبدع(از سرنوبلا سابقہ نمونے کے پیدا کرنے والا) کہا جائے یا اس کے علاوہ دیگر ناموں میں سے کوئی نام دیا جائے لیکن ازل میں اس کے ساتھ اس کی مقارنت اس امرکا تقاضا