کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 162
کے حدوث کو مستلزم ہے کیونکہ یقیناً کسی مفعولِ معین کا اپنے فاعل کے ساتھ مقارنت یہ عقلی طور پر ابتداء میں ممتنع ہے ۔ ثانیاً :....یہ کہا جائے گا کہ اگر اس امرکا ممکن ہونا ثابت ہو جائے کہ اس ذات کے لیے ایسے ارادے ثابت ہوں جو یکے بعد دیگر ے وجو دمیں آتے ہیں اور اپنی نوع کے اعتبار سے دائم ہیں تو پھر عالم میں سے کسی چیز کے قدم کا قول ایک بے بنیاد اور بے دلیل قول ہوگا ۔ ثالثاً :.... یہ کہا جائے گا کہ بے شک وہ ذات اور فاعل جس کی شان یہ ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے اردوں کے ذریعے ایک شے کو دوسری شے کے بعد وجود دیتا ہے تو پھر اس کے ارادوں اور اس کے افعال میں سے کسی بھی شے کا قدیم ہوناممتنع ہو جائے گا اور ایسی صورت میں اس کے مفعولات میں سے کسی بھی شے کا قدم ممتنع ثابت ہو جائے گا لہٰذا نتیجۃً پورے عالم میں سے کسی بھی شے کا قدم ممتنع ہو جائے گا ۔ رابعاً: ....اشکال کے جواب میں یہ کہا جائے گاکہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ ذات ازل میں اس معین چیز ( مثلاًفلک ) کا ایسا ارادہ کرنے والا ہے جومراد کے ساتھ مقارن اور متصل ہے تو یہ بات لازم آئے گی کہ وہ لوازم کایسا ارادہ ارادہ کرتا ہے جو مراد کیساتھ بالکل مقارن اور متصل ہے کیونکہ کہ یقیناً کسی بھی ملزوم کا لازم کے بغیر وجود محال ہے اور لازم کے لیے تو نوعِ حوادث ثابت ہیں اور کسی نوع کا ایسا ارادہ کرنا جو ازل میں اس کے مقارن ہو ،محال ہے کیونکہ ازل میں نوع کا بتمامہ پایا جانا (یعنی اس کے تمام افرادکا وجود میں آنا ممتنع ہے۔ کلابیہ کا عقیدہ اگر کہا جائے کہ حوادث کا دوام تو اس کے لیے لازم ہے پس یہ اس ارادے کے دوام کو مستلزم ہو گاجو ان حوادث کے ساتھ مقارن ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ اِس حادث (کو پیدا کرنے )کا ارادہ کرنا یہ اس دوسرے حادث (کو پیدا کرنے کا )ارادہ نہیں یعنی دونوں ایک دوسرے کے مغائر ہیں اور اگر وہ اس (یعنی دو الگ الگ حوادث کا ایک ہی ارادے سے وجود میں آنا)بات کو جائز یعنی ممکن سمجھتے ہیں تو ان پر یہ الزام ہوگا کہ وہ ایک ہی قدیم اور ازلی ارادے سے تمام کائنات کے وجود کو جائز اور ممکن سمجھیں جس طرح کے متکلمین میں سے بعض اس کے قائل ہیں جیسا کہ ابن کلاب اور اس کے اتباع اور اس صورت میں ان کا قول باطل ہو جائے گا اور اگرصورتِ حال یہی ہے تو پھر کسی معلول معین قدیم کے بارے میں جب یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ ایک قدیم اورازلی ارادے کے ساتھ مراد ہے اور حوادث میں سے کوئی شے بھی اس کے ساتھ مقارن اور متصل نہیں ہے کیونکہ حوادث قدیم نہیں ہوتے اور ارادے اور حوادث کا خواہ کوئی بھی نوع ہو قدیم نہیں تاہم بسا اوقات یہ کہا جا تا ہے کہ اس کے ساتھ ایک دائمی نوع مقارن ہو تا ہے لیکن یہ بات کئی وجوہ سے ممتنع ہے جس کے