کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 161
ماسوا تمام موجودات مخلوقِ حادث ہیں بعد اس کے کہ پہلے معدوم تھے اور یہاں پر تو مقصود یہ ہے کہ وہ فلاسفہ جو عالم کے قدم کے قائل ہیں اگر وہ بغیر کسی سبب ِ حادث کے حوادث کے حدوث کو اور ان کے وجود میں آنے کو جائز اور ممکن سمجھتے ہیں تو عالم کے قدم کے بارے میں ان کی بڑی دلیل اور برھان باطل ہو جائے گی اور اگر وہ اس بات کو ممتنع سمجھیں تو پھر عالم کا حوادث سے خالی ہونا ممتنع ہو جائے گا اور وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ عالم کسی زمانے میں حوادث سے خالی نہیں تھا ۔
جب ہر وہ معین موجود چیز جس کو اللہ ارادے سے پیدا فرماتے ہیں اللہ کی مراد بن سکتا ہے تو بتحقیق وہ حوادث کے ساتھ بھی مقارن اور اس کو مستلزم ہیں پس یہ ممتنع ہوا کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کریں (یعنی اس کے احداث کا )اور اس کے اُن لوازم کا ارادہ نہ کریں جو اس موجودِ معین سے کسی بھی حال میں جدا نہیں ہو سکتے اور اللہ تعالی ہر شے کا رب ہے اور اس کے خالق ہیں اس کے علاوہ ان کا کوئی رب نہیں پس یہ بات ممتنع ہے کہ بعض اشیاء کا حدوث اور ان کا وجود تو اُس کے ارادے سے ہو اور بعض حوادث کا وجود اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے ارادے سے ہو بلکہ حوادث اور ان کے تمام لوازم سب کے سب اللہ ہی کے ارادے سے موجود ہوئے ہیں اور جب صورتِ حال یہ ہے تو پس وہ قدیم ازلی ارادہ یا تو اپنی مراد کے ساتھ مقارنت اور اتصال کو مستلزم ہوگا یا ایسا نہیں ہوگا اگر پہلی صورت ہے تویہ بات لازم آئے گی کہ مراد اور اس کے لوازم قدیم اور ازلی ہوں اور ہر اس چیز کے ساتھ اس کے حوادث لازم ہوتے ہیں جس کا کوئی فاعل اور خالق ارادہ کرتا ہے اور جس کو اپنی کاریگری سے وجود دیتا ہے پس یہ اس کو مستلزم ہے کہ وہ (حوادث )اس کی ذات کے مراد ہوں اور اس کو بھی کہ وہ قدم اور ازلی ہوں کیونکہ یہ بات پہلے سے فرض کی گئی ہے کہ جس چیز کا بھی ارادہ کیا جائے تو وہ (مراد)ارادہ کرنے والی ذات کے ارادے کیساتھ مقارن اور متصل ہوتی ہے پس یہ بات لازم آئی کہ تمام کے تمام حوادث جویکے بعد دیگر ے وجود میں آتے ہیں وہ بھی قدیم اور ازلی ہوں اور یہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے۔
ابن ملکا کے قول کے مشابہ اعتراض اور اس پر رد
اگر یہ کہا جائے کہ وہ ذات کسی قدیم چیز کو توارادہ قدیمہ کے ساتھ پیدا کرتی ہے اور ان حوادث کا جو اس کے بعد وجود میں آنے والے ہیں ان کوایسے ارادے کے ذریعے وجود دیتا ہے جو (پہلے قسم کے ارادے سے ) متعاقب ہے یعنی قدیم چیز کے ارادے کے بعد ہے جس طرح کہ فلاسفہ کی ایک جماعت کا خیال ہے اور یہ ’’المعتبر‘‘ کے مصنف کے قول کے مشابہ ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ :
اولاً :.... یہ کہ کسی چیزکا مراد ہونا اُس کے حدوث کو مستلزم ہے؛ بلکہ اس کے مفعول ہونے کا نفس تصور اس