کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 160
اور اگر کہا جائے کہ یقیناً یہ تو جائز اور ممکن ہے اور عالم کا وجود اپنے حوادث کے ساتھ ممکن ہے باوجودیکہ یہ بات مانی جائے کہ حوادث عالم کے اندر حادث ہوئے بعد اس کے کہ موجود نہ تھے یعنی میری مراد نوعِ حوادث ہے ورنہ ہر حادثِ معین کا یہی حال ہے کہ وہ موجود ہوجاتا ہے بعد اس کے کہ وہ نہیں تھا۔
تما م ازمنہ میں انواع حوادث کے بارے میں اقوالِ ثلاثہ
یقیناً نزاع اور اختلاف تو نوعِ حوادث میں ہے کی آیا زمانہ مستقبل اور ماضی میں ان کا دوام ممکن ہے یا فقط مستقبل میں یا دونوں زمانوں میں سے کسی میں بھی ان کا دوام ممکن نہیں ہے جیسے کہ مسلمانوں اور غیر مسلم اہلِ نظر کے نزدیک تین اقوال معروف ہیں ان میں ضعیف ترین قول ان لوگوں کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ انواعِ حوادث کو دوام حاصل نہیں ہے اور نہ ان کا دوام ممکن ہے ،ماضی میں بھی اور مستقبل میں بھی جیسے کہ جہم بن صفوان اور ابو الہذیل ہلاَّف کا قول ہے اور دوسرا قول ان لوگوں کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ انواعِ حوادث کا زمانہ مستقبل میں تو دوام ممکن ہے ماضی میں نہیں جیسے کہ جہمیہ اور معتزلہ میں سے اکثر اہلِ کلام کا یہ قول ہے اور بعض کرامیہ ،اشعریہ اور شیعوں کا بھی ، اور بعض فقہا کا بھی یہ قول ہے۔تیسر اقول: ان کا قول ہے جوکہتے ہیں : انواعِ حوادث کا دوام زمانہ ماضی و مستقبل دونوں میں ممکن ہے جیسے کہ آئمہ محدثین اور بعض آئمہ فلاسفہ اس کے قائل ہیں لیکن وہ لوگ جو افلاک کے قدم کے قائل ہیں جیسے ارسطو اور اس کی جماعت ۔وہ اس بات کے قائل ہیں کہ فلک کے حوادث کو دوام حاصل ہے۔ اور اس بات کے بھی وہ قائل ہیں کہ فلک کی حرکت میں سے ہر دور ( چکَّر)ایک دوسرے دَور کے ساتھ مسبوق ہے (یعنی اس سے پہلے ایک اور دور موجود ہے )لیکن اس طرح مسبوق کہ زمانہ ماضی میں اس کا کوئی اول نہیں یعنی وہ کسی اول پرمنتہی نہیں ہوتا نہ اس کے لیے کوئی مبدأ ثابت ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ،زمینوں اور اس کے درمیان جو کچھ ہے وہ چھ دن میں نہیں پیدا کیا بلکہ اس قول کی حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کی تخلیق نہیں کی جس طرح ایک اور جگہ میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے اور یہ تو تمام فرق کے اتفاق کے ساتھ یہ کفرہے جس کے مسلمان بھی قائل ہیں اور یہود و نصاریٰ بھی قائل ہیں ۔
ارسطو اور اس کے اتباع (پیروکار)ممکنات کے لیے حوادث کو ازلی مانتے ہیں اور وہ لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اس کا رب ہے ،اس کا مالک ہے اور اس کی ذات کے ماسوا تمام موجودات مخلوقِ حادث ہیں اور یہ سب حضرتِ آدم کے بعد وجود میں آئے پس وہ خالقِ واجب اور مخلوقِ ممکن کے درمیان حوادث کے دوام میں فرق کرتے ہیں اور یہی دیگر فرق کے آئمہ کا قول ہے پس یہ لوگ اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت کے ساتھ متکلم ہیں اور ازل سے زندہ ہے اور جس چیز کا ارادہ کرلے اس کو (بہر صورت )کرگذرنے والے ہیں یقیناً یہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے