کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 16
دین اسلام کی یہی وہ حسین و جمیل صورت تھی جس کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تیار کیا اور انہیں اس قابل بنایا کہ بنی نوع انسان کو دعوت دینے میں آپ کے جانشین قرار پائیں ۔چنانچہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی سے متصل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دارفانی کو خیر باد کہہ کر جب ’’ الرفیق الاعلیٰ ‘‘ سے ملاقات کی تو آپ بے حد مسرور و مطمئن تھے۔ آپ کے برگزیدہ و منتخب صحابہ تحفظ دین کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے تھے۔ یہ اصحاب کرام خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں اپنے نفوس و قلوب کو اﷲکی طاعت و عبادت میں جھکائے رکھتے۔ یاد رہے یہ وہی ابوبکر ہیں جن کی شان میں ، نیز ان کے محب مخلص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق، ان کے بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے تھے: (( أَلَاخَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ۔)) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین فرد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے فوراً بعد صحابہ کرام نے جزیرہ عرب میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی اور جہاد کے لیے اسی طرح صف آرا ہوئے جیسے وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں نماز کے لیے صفیں باندھا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فوجیں رسالت محمدی کی امانت اٹھائے عازم عراق و شام ہوئیں اور قریبی اقوام تک پہنچ کر دم لیا۔ ان کے مخلصانہ جہاد کا نتیجہ یہ تھا کہ تائید ربانی نے ان کا ساتھ دیا اور جن علاقوں میں خلیفہ اول کے سپہ سالاروں کے جھنڈے لہرا رہے تھے، وہاں ’’ حَیّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ کی صدائیں گونجنے لگیں ۔عہد صدیقی کے نامور سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ، خالد بن ولید، عمرو بن العاص اور یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم تھے۔ جن قوموں سے بھی ان کا واسطہ پڑا، یہ ان کے حق میں اسلام کے معلم و داعی اور اﷲ و رسول کے پیام رساں ثابت ہوئے۔ ان کی مخلصانہ دعوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دیارو امصار میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی، شہروں کے دروازے ان کے لیے کھل گئے اور وہاں کے رہنے والوں نے ان کی تعلیمات و ارشادات پر لبیک کہا۔وادیٔ دجلہ وفرات اور دیار شام میں جب اﷲ کی نصرت وتائید سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر طرح مسرور ومطمئن ہوگئے تو رب ذوالجلال نے انہیں عالم آخرت میں صحبت نبوی کے لیے پسند فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی معیت بخشی جیسا کہ دنیا میں وہ اس سعادت سے بہرہ اندوز ہوچکے تھے۔چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے بعد کشتیٔ اسلام کے ناخدا قرار پائے اور جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت محمدی کے افضل ترین فرد تھے ۔[2]
[1] سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ(حدیث:۱۰۶) [2] مسند احمد(۱؍۱۰۶) من عدۃ طرق۔