کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 159
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ زمان کے اجزاء تو باہم متصل اور یکے بعد دیگر ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کسی زمان کا فصل نہیں ہوتااور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے ذریعے ازل سے فاعل نہیں تھے اور نہ ازل سے متکلم تھے ۔بلکہ اس کے بعد وہ فاعل بنے۔ اوروہ اپنی مشیت اور قدرت سے متکلم بنے۔ تو اس قول کا قائل زمان کے اجزاء کے درمیان لا متناہی حد تک فصل اور جدائی ثابت کرنا چاہتا ہے۔ پس یہ اس کو زمانے کے بعض اجزاء کا بعض دیگر اجزاء پر تقدم کے مانند کیسے قرار دے سکتا ہے ؟ خلاصہ کلام یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ کا اپنی مشیت اور قدرت سے فاعل ہونے کا علم بلکہ نفس ِ اس کا فاعل ہونا ؛قطع نظر اس کے کہ اس کا فعل اس کی مشیت اور قدرت سے صادر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ نفس الامر میں اس کے لیے لازم ہے۔ پس کسی متعین چیزکے لیے اُس کے فاعل ہونے پرعلم اس بات کا علم حاصل ہونے کو مستلزم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس شے کو وجود دیا ہے اور اس کو پہلی بار پیدا کیا ۔اور اس کام کے لیے فاعل و خالق اور موجد ہیں ۔ اور اس کے علاوہ دیگر عبارات جو اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ جو بھی اس نے اپنی قدرت اور ارادے سے انجام دیا وہی عدم سے وجود میں آیا ہے۔ ا ور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور ارادے کے ساتھ دوام کی صورت میں فاعل ہیں تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالی کا از ل میں کسی شے معین کے کرنے کا ارادہ کرنا ممتنع ہوا ۔کیونکہ کسی حادث کے وجود کا ارادہ کرنا یقیناً اس کے وجود کے لوازم کا ارادہ کرنے کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ملزوم کا وجود لازم کے وجود کے بغیر محال ہے۔پس وہ قدیم ارادہ اگر از ل میں کسی مرادِ معین کے وجود کا تقاضا کرتا ہے تو یقینااس کے وجود کے لوازم کا بھی تقاضا کرے گا۔ اور ہرموجود معین حوادث میں سے کسی اور شے کے ساتھ ضرورمقارن اور متصل ہوتا ہے جیسے کہ وہ فلک جو حوادث سے جدا نہیں ہے ۔اسی طرح اقوال اور وہ نفوس جن کو یہ فلاسفہ ثابت کرتے ہیں وہ حوادث کے ساتھ ازل سے مقارن ہیں ۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ حوادث خود معلول ہیں ۔ پس یقیناً یہ حوادث اُن عقول اور نفوس کے لیے لازم ہیں اور ہر تقدیر پر اس کے ساتھ مقارن اور متصل ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم میں حوادث کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور وہ دو حال سے خالی نہیں : اول یہ کہ یہ تمام حوادث عالم کے وجود کے ساتھ ازل سے مقارن ہوں گے دوم یہ کہ وہ عالم کے وجود میں آنے کے بعد حادث ہوئے پس اگر یہ حوادث ازل سے عالم کے ساتھ مقارن اور متصل ہیں یعنی اولی وجود سے تویہ بات ثابت ہوئی کہ عالم خود بھی حوادث کے ساتھ مقارن رہا اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ حواد ث تمام عالم کے بعد وجو دمیں آئے ہیں تو یہ بات ماننا پڑے گا کہ عالم ایک زمانے میں حوادث سے خالی تھا اور حوادث بعد میں پیداہوئے اور یہ دوسری بات اس کا تقاضا کرتی ہے کہ بغیر کسی سببِ حادث کے حوادث کو موجود مانا جائے اور یہ تو گذشتہ تقریر کے مطابق ممتنع ثابت ہو چکا ہے اور فلاسفہ نے بھی اس کوتسلیم کیا ہے ۔