کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 158
جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْہَا بُـکْرَۃً وَّعَشِیًّا﴾ (مریم:۶۲ ) ’’اور ان کے لیے ان کا رزق ہے اس میں صبح و شام۔‘‘ اور کئی روایات میں یہ بات آئی ہے کہ اہلِ جنت دن اور رات کوایسے انوار کے ذریعے پہچانیں گے جو عرش کی طرف سے ان پر ظاہر ہوں گے۔ اسی طرح آخرت میں ان کے لیے ایک ’’یوم المزید ‘‘بھی ہوگا جو کہ یوم الجمعۃ سے عبارت ہے جس کو اہلِ جنت ان انوار کے ذریعے پہچانیں گے جو نئے اور کئی قسم کے ہونگے۔ اگرچہ جنت میں تو سب کچھ نور ہی نور ہے اور بہنے والی نہریں ہیں جو ہر جگہ نظرآئیں گی۔[1] لیکن بعض اوقات ایک خاص قسم کا نور ظاہر ہوگا جس کے ذریعے دن رات سے جدا ہو جائے گا جس کے ذریعے دن اورات کے درمیان تمیز ہو سکے گی۔ پس اللہ تعالیٰ جب اپنی مشیت کے ذریعے ازل سے متکلم ہیں اور اپنی مشیت کے ذریعے ہی وہ سب کچھ کرنے والے ہیں جن کا وہ ارادہ کرتے ہیں تواس کے کلامِ ازلی اور افعال ازلیہ کی مقدار وہی وقت ہے جس میں اس کے مفعولات (حوادث) وجود میں آتے ہیں اور اللہ کی ذات اپنے ماسوا تمام چیزوں پر تقدمِ حقیقی کے ساتھ متقدم ہیں اور ہمیں اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ ہم اس کا جواب اس عبارت سے دیں جو شہرستانی (الملل و النحل )میں اور امام رازی رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات نے دیا ہے یعنی یہ کہ تقدم کی مذکورہ اقسام میں زمان کے بعض اجزاء کا بعض پر تقدم ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا تقدم ایک اور نوع کا ہے اور یہ تو رب تعالیٰ کا پورے عالم پر تقدم ہے پس یقیناً یہ رائے دو وجہ سے مردود اور ناقابلِ اعتبار ہے : 1۔ ایک تو اس لئے کہ زمان کے بعض اجزاء کا دیگر بعض اجزاء پرتقدم زمان کے اعتبار سے ہے اس لیے کہ یقیناً تقدمِ زمانی سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہاں کوئی ایک ایسا زمانہ ہے جو تقدم ،متقدم اور ان دونوں کی صفات سے خارج اور جدا ہے بلکہ مراد یہی ہے کہ متقدم متاخر سے پہلے وجو دمیں آیا ،اور اس کا تقدم ایسا ہے جو معقول ہے جس طرح آج کے دن کاکل آنے والے دن پر تقدم اور کل گذشتہ کا آج کے دن پر تقدم اور یہ بات بداہتاً معلوم ہے کہ طلوعِ شمس اور اس وقت وجود میں آنے والے حوادث کا زوال کے وقت پر ایک نوع ہے پس نفسِ زمانِ متقدم کا متاخر پر تقدم اور زمانِ متقدم میں وجو دمیں آنے والے حوادث کا زمان متاخر پر تقدم کے درمیان کوئی فرق نہ رہا۔
[1] ونقل ابن قیِمِ الجوزِیِ فِی کِتابِہ ’’حادِی الأرواحِ ِإلی بِلادِ الأفراحِ ‘‘ ص9 ، الطبعۃ الثانِیۃ، القاہِرۃِ، 1938، سنن ابن ماجہ أن رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:’’ ألا ہل مشمِر لِلجنِۃ، فِإن الجنۃ لا حظر لہا، ہِی وربِ الکعبۃِ نور یتلألأ، وریحانۃ تہتز، وقصر مشِید، ونہر مطرِد۔‘‘ الحدِیث وقد رواہ المنذِرِی فِی الترغِیبِ والترہِیبِ 5؍475 ، القاہِرِۃ۔