کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 157
یہ بات ذکرکی ہے کہ تقدم اور تاخر کئی طرح پر ہے کبھی یہ ذات اور علت ہونے کے اعتبار سے ہوتا ہے جیسے انگلی کی حرکت کہ وہ مقدم ہوتی ہے انگوٹھی کی حرکت پر اور کبھی تقدمِ طبعی ہوتا ہے جیسے کہ اعداد میں ایک کی دو پر تقدم اور کبھی مرتبہ کے اعتبار سے ہوتا ہے جیسے کہ عالم کی جاہل پراور کبھی مکان کے اعتبار سے تقدم ہوتا ہے جیسے صفِ اول کی دوسری صف پر اور مسجد کی اگلے طرف کی پچھلی طرف پر اور کبھی تقدم زمان اور وقت کے اعتبار سے ہوتا ہے لیکن یہ ایسا کلام ہے جو محلِ نظر ہے کیونکہ یقیناً معروف تقدم اور تاخر تو صرف زمان ہی کے اعتبار سے سمجھا جاتا ہے کیونکہ قبل ،بعد اور مع وغیرہ کے الفاظ تقدم اور تاخر کے معانی کو لازم ہیں ۔رہا علت کا معلول پر تقدم اور زمان میں مقارنت کیساتھ تقدم ذاتی تو یہ بالکل معقول ہی نہیں اور نہ اس کی کوئی ایسی مثال ہے جو نفس الامر میں اس کے مطابق ہو بلکہ یہ تو محض ایک ایسا خیال ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔رہا ایک (عدد )کا دو پر تقدم تو اگر اس سے مراد واحدِ مطلق ہو تو اس کا بھی خارج میں کوئی وجود نہیں البتہ ذہن میں ہے ۔اور ذہن تو اثنین مطلق سے پہلے واحدِ مطلق کا تصور کرتا ہے ۔پس وہ تصور کے اعتبار سے مقدم ہوا تقدمِ زمانی کے ساتھ؛ اور اگریہ مراد نہ ہو تو پھر تو کوئی تقدم نہیں ۔ بلکہ ایک (عدد)دو کے لیے شرط ہے اور (یہ بات بداہۃً معلوم ہے کہ )شرط مشروط سے کبھی بھی متاخر نہیں ہوتی؛ بلکہ کبھی کبھار اس کے ساتھ مقارن اور متصل ہوتی ہے۔ پس یہاں تو سوائے تقدمِ زمانی کے اور کوئی ایسا تقدم نہیں پایا گیا جو واجب ہو۔رہا مکان کے اعتبار سے تقدم تو وہ ایک اور نوع ہے اور اس کی اصل بھی تقدمِ زمانی ہے اس لیے کہ مسجد کے اگلے حصے میں ہونے والے افعال اُن افعال پر زمانا ًمقدم ہیں جو پچھلے حصے میں کئے جاتے ہیں کیونکہ امام کا فعل مقتدی کے فعل پرزمان کے اعتبار سے مقدم ہے۔ پس فعلِ مقدم کے محل کو مقدم کہا گیاہے اور یہی اس کی اصل ہے ۔اسی طرح تقدم بالرتبہ کا حال ہے ؛ یقیناً اہلِ علم و فضل شرف والے افعال میں اور شرف والے مقامات میں ان لوگوں پر مقدم اور ان سے آگے ہیں جو علم و فضل والے نہیں پس اس کو تقدم کہا گیاہے۔ اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہی ہے۔ اور جب صورتِ حال یہ ہے تو اگر رب تعالیٰ اپنے علاوہ تمام ماسوا پر ایسے اول اور متقدم ہیں تو پھر ہر چیز اس کی ذات سے موخر ہوئی اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ ازل میں فاعل نہیں تھا تو وہ پھر ہر معین فعل اور معین مفعول اس کی ذات سے مؤخر رہا۔
مطلق زمان حرکت ِ مطلقہ کی مقدار سے عبارت ہے۔
جب کہا جائے کہ زمان تو حرکت کی مقدار کا نام ہے پس وہ شمس یا فلک کے حرکت کی طرح کسی حرکتِ معینہ کے مقدار سے عبارت نہ ہوا بلکہ مطلق زمان حرکتِ مطلقہ کی مقدار کہلاتا ہے اوربالتحقیق آسمانوں اور زمینوں ، شمس و قمر کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حرکات اور ازملہ کو پیدا کر لیے تھے اور قیامت قائم کرنے کے بعد بھی حرکات موجود رہیں گی پس شمس و قمر ختم ہو جائیں گے اور پھر بھی جنت میں حرکات اور مختلف ازملہ موجود ہوں گے