کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 155
یہاں تومقصود صرف اتنی بات ہے کہ عام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کہ کسی معین چیزکے مراد(جس کا ارادہ کیا جائے ) اور مقدور ہونے پر علم اُس کے حادث ہونے پر علم حاصل ہونے کو مستلزم ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ معدوم تھا۔ بلکہ یہ بات تو عقلاء کے نزدیک بداہۃ ضرورت کے تحت معلوم ہے۔یہی وجہ ہے کہ مناطقہ کے نزدیک تو کسی چیز کے بارے میں یہ تصور کرناکہ وہ کسی فاعل کا مقدور ہے اور فاعل اس کا ارادہ رکھتاہے ؛اور اس فاعل نے اپنی مشیت اور قدرت سے اس کام سرانجام دے چکا ہے؛ یااس شے کو وجود دیا ہے ، اس شے کے محدث ہونے کو مستلزم ہے۔بلکہ ان کے نزدیک تو کسی چیز کے بارے میں صرف مفعول یا مخلوق یا مصنوع ہونے کا تصور ہی اس کے حادث ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ وہ عدم سے وجود میں آیا۔ پھر اس کے بعد کبھی کبھاریہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس فاعل نے اپنی مشیت اور قدرت سے اس کام کو کیا ہے یا نہیں ؟اور جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ کوئی بھی فاعل فاعل نہیں بنتا مگر صرف اور صرف اپنی مشیت اورقدرت کے سے اپنی مقدور اور مرادچیز کو انجام دے؛ جب وہ انجام دے تو وہ چیز محدث ہوتی ہے۔یہ اس بات پر ایک دوسری دلیل بن گئی کہ وہ شے محدث ہے۔ اسی وجہ سے عقلاء میں سے جس نے بھی اس بات کا تصور کیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے یا اشیاء میں سے کسی شے کو پیدا کیا ہے تو یہ بات اس کو مستلزم ہے کہ وہ مخلوق بھی محدث ہے ؛ اورعدم سے وجود میں آئی ہے۔ اور جب ان میں سے بعض سے یہ کہا جائے کہ یہ بتلاؤکہ وہ قدیمِ مخلوق ہے یا قدیمِ محدث ہے۔ مخلوق اور محدث کے لفظ سے وہ معنی مراد تھے جو ان متأخرین دہری فلاسفہ بیان کرتے ہیں ۔ جو محدث کو معلول بتاتے ہیں ۔ اور اس بات کے قائل ہیں کہ وہ قدیم اور ازلی ہے؛ اس کے باوجود وہ ایسا معلول اور ممکن ہے جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہے۔ پس جب عقلِ سلیم اس مذہب کا تصور کرتا ہے تو یقیناً اس پر تناقض کا حکم لگاتا ہے۔ اور یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس مذہب کے قائلین نے تونقیضین کو جمع کر لیا ہے۔کیونکہ جب انہو ں نے ایک ایسی مخلوق کو مان لیا جوکہ محدث اورمعلول اور مفعول ہو اور وجود اور عدم کا امکان رکھتا ہو؛ اور ان تمام صفات کے باوجود انہوں نے اس ذات کوقدیم اور ازلی بھی فرض کر لیا ہے جوکہ واجب الوجوب لغیرہ ہے اور اس کا عدم توممتنع ہے ۔ ہم نے اس بات کو نسبتاً زیادہ تفصیل کے ساتھ محصل اور غیر محصل پر کلام کرتے ہوئے بیان کیا ہے اور وہاں ہم نے یہ بات بتلائی ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ‘[1] نے اہلِ کلام سے جو یہ بات نقل کی ہے کہ وہ ایک ایسے مفعول کے وجود کو ممکن مانتے ہیں جو کسی علت کے لئے معلول ہو ،ازلی ہو،اس کا ان میں سے کوئی بھی قائل نہیں بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ہر مفعول صرف اور صرف محدث (حادث)ہی ہوتا ہے۔
[1] ابو عبداللہ محمد بن عمر بن الحسن الحسین الرازی : فخر الدین ؛المعروف بابن الخطیب؛ متوفی ۶۰۶ہجری۔ ان ائمہ اشاعرہ میں سے ایک تھے جنہوں نے اشعری مذہب کے ساتھ فلسفہ اور اعتزال کو ملا لیا تھا۔دیکھیں : ابن خلکان ۳ں ۳۸۱۔ لسان المیزان ۴؍۲۴۶۔ طبقات شافعیہ ۸؍۸۱۔