کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 154
ازل ہی سے متکلم ہیں جب بھی چاہیں جیسے چاہیں ۔ پس یقیناً یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ صفتِ کلام اپنی نو ع کے اعتبار سے تو قدیم ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ کے کلمات کے لیے کوئی انتہاء نہیں ۔ بلکہ وہ ازل سے اپنی مشیت اور قدرت سے متکلم ہیں ۔ اور ازل ہی سے ہی جیسے چاہیں جب چاہیں متکلم ہیں ۔اور اس جیسی دیگر عبارات بھی ہیں ۔ اور وہ لوگ جنھوں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور قدرت سے متکلم ہیں ؛ اور اس کا کلام غیر کے اعتبار سے حادث اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ یا یہ کہا کہ اس کا کلام ایسی مخلوق ہے جو اس کی ذات سے جدا ہے؛ تو ان لوگوں کی رائے کے مطابق یہ بات ممتنع ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم بن جائے۔ پس تحقیق عقلاء کے تمام گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایسی معین قدیم اور ازلی ذات جو واجب لذاتہ ہو وہ کسی دوسرے کے لیے مقدور اور مراد نہیں بنتی۔ بخلاف اس کے کہ جس کی نوع تو ازل سے موجود تھی لیکن اس سے تھوڑا تھوڑا کر کے وجود ملا۔[ یعنی وہ چیز دھیرے دھیرے وجود میں آئی]۔ تو یہی رائے اہل سنت والحدیث اسلاف کے آئمہ کی بھی ہے یعنی کے بے شک وہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور قدرت سے متکلم ہیں ۔ جیسے کہ ان جمہورِ فلاسفہ کی رائے ہے جو افلاک اور دیگر مخلوقات کے حدوث کے قائل ہیں جن میں سے ارسطو اور اس کے اصحاب بھی ہیں ؛ جو افلا ک کے قدیم ہونے کے قائل ہیں ۔ پس ائمہ اہل ملت اور ائمہ فلاسفہ اس بات کے قائل ہیں کہ افلاک حادث ہیں جوکہ عدم سے وجودمیں آئے ہیں ۔ باوجود یہ کہ وہ اسکے بھی قائل ہیں کہ نوعمقدورومراد ازل سے موجود ہے جو کہ آہستہ آہستہ وجو دمیں آئی۔ لیکن متکلمین میں سے بڑی تعداد اس بات کی قائل ہے کہ جو بھی چیز دوسری چیز کے لیے مقدور اور اس کی مراد ہو تو یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ازل سے موجود ہو اور دھیرے دھیرے وجو د میں آئے اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو مستقبل میں بھی اس بات کے ممتنع ہونے کے قائل ہیں ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کے ساتھ ان فلاسفہ نے دلائل بازی کی جوقدمِ عالم کے قائل ہیں ۔ اور جب انہوں نے ان کے ساتھ مناظرہ کیا ؛ توان کا اعتقادہوگیا کہ انھو ں نے ان کو دلائل میں مغلوب کر دیاہے۔اب تو یہ سمجھنے لگے کہ انھو ں نے تمام اہل ملت کو شکست دے دی۔ حالانکہ ان کو دیگر ملتوں کے آئمہ اور قدیم فلاسفہ کے بڑے بڑے آئمہ کے اقوال کا علم ہی نہیں ۔ اور اس کا سبب اِن کا یہ ظنِ فاسد ہے کہ دیگر ملتوں کے آئمہ اور فلاسفہ کا صرف اور صرف وہی قول ہے جو متکلمین کا ہے یا مجوس اور فرقہ حرَّانیہ کا ہے۔[1] یا ان لوگوں کا قول جو کسی معین مادے کے قدم کے قائل ہیں ؛ یا اس طرح کے دیگر وہ اقوال جن کا فساد اہلِ نظر کے ہاں واضح ہے ؛ اس کو ایک اور جگہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔
[1] یہاں پر مجوس سے ابن تیمیہ کی مراد وہ معتزلہ ہیں جو کہتے ہیں کہ: (خیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور شر انسان کی طرف سے ہوتا ہے)۔اور حیرانیہ سے ان کا مقصود اسلام کی طرف منسوب فلاسفہ ہیں ؛ خاص کر فاریابی ؛ جس نے فلسفہ حیران کے مشرکین صابیہ سے شہر حیران میں سیکھا تھا۔ دیکھیں : الرد علی المنطقیین ۸۷۹۔