کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 152
کیونکہ ایک مختار ذات کا فعل صرف اور صرف اس کی قدرت اور ارادے پر موقوف ہوتاہے۔بے شک وہ کبھی اس پر قادر ہوتا ہے لیکن فعل کا ارادہ نہیں کرتا پس وہ اسے کرتا نہیں اور کبھی فعل کا ارادہ تو رکھتا ہے لیکن وہ اس سے عاجز ہونے کی وجہ سے نہیں کر پاتا۔جب کہ کمال قدرت بھی ہو اور ارادہبھی جازمہ(پختہ ) ہو تو فعل کا وجود اس کے علاوہ کسی اور چیز پر موقوف نہیں ہوتا۔پس کامل قدرت اور پکا ارادہ ہی کسی ممکن فعل کا مرجحِ تام ہے۔ پس ان دونوں چیزوں کے پائے جانے کے وقت اس فعل کا وجود لازم اور واجب ہوجاتا ہے۔ اور رب تعالیٰ تو ایسے قادرِ مختار ہیں جو اپنی مشیت کے ساتھ فعل صادر کرتے ہیں اس پر کوئی جبرو اکراہ کرنے والا نہیں اور نہ ہی وہ اپنی ذات کے اعتبار سے کسی فعل کے لیے مُوجِب بنتا ہے۔ اور نہ اس معنی پر کہ وہ ایسی ذات کے ذریعے فعل صادر کرتا ہے جس کے لیے کوئی مشیت اور قدرت ثابت نہیں ۔ بلکہ جس فعل کا وجود وہ چاہتا ہے؛ تو وہ اپنی مشیت اور قدرت کے ذریعے فعل کو وجود بخشتا ہے۔ یہ اس ذات کی حقیقت ہے جو کامل قدرت اور کامل اختیار والی ہو۔ پس وہ ایسا قادر مختار ہے جو اپنی مشیت سے ان تمام چیزوں کو وجود دیتا ہیجن کو وہ وجود دینا چاہے ۔ اور اس تحریر کے ذریعے اس مسئلہ میں وارد ہونے والا اشکال زائل ہوگیا۔ اس لیے کہ جب موجب بذاتہ ازلی ہو تو اس کا موجب بھی اس کے ساتھ ملاہوا ہوتا ہے۔ پس جب رب سبحانہ و تعالیٰ ازل سے ہی اس عالم کے لیے موجب بذاتہ ہے توجو کچھ اس کائنات میں ہے ؛ وہ بھی ازل کے ساتھ اس سے مقارن ہوا۔اور ایسا کہنا تو ممتنع ہے۔ بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں تھا وہ موجود تھا ا ور جو کچھ اس کی مشیئت میں نہیں تھا؛ وہ نہیں تھا۔ [یعنیجس چیز کے وجود کو اللہ تعالیٰ چاہیں وہ موجود ہو جاتا ہے اور جس کے عدم کو چاہیں تو وہ معدوم رہتا ہے] پس عالم میں سے وہ تمام چیزیں جن کے وجود کو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو ان کا وجوداللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت کے تحت ہونا واجب ہوتاہے۔ اور جسے نہیں چاہتا تو اس کا وجود ممتنع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جو چیز بھی عدم سے وجود میں آتی ہے تواس کی قدرت اور مشیت کے ہی ہوتی ہے۔ اور یہ بات اس کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ تمام اشیاء جن کے وجود کا اللہ تعالیٰ ارادہ کریں ان کا وجود واجب ہے۔[ یعنی یہ ممتنع ہے کہ وہ وجود میں نہ آئے] ۔ [موجب بالذات ؟] ’’مُوجِب بالذات ‘‘کے لفظ میں اجمال ہے۔ اگر اس سے یہ مراد لیا جائے کہ وہ ان تمام اشیاء کو وجود دیتا ہے جن کو اپنی مشیت اور قدرت کے ذریعے وہ ایجاد کر تا ہے؛ تو اللہ تعالیٰ کے فاعل بالقدرت و مشیئت ہونے اور موجوب بالذات ہونے میں اس تفسیر کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں رہتا۔ اور اگر مُوجِب بالذات کے لفظ سے یہ مراد لیا جائے کہ وہ اشیاء کو ایک ایسی ذات کے ذریعے موجود کر دیتا ہے جو قدرت اور اختیار سے خالی ہے تویہ بات باطل اور ممتنع ہے۔ اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ اس کی ذات ایسی علتِ تامہ ازلیہ ہے جو اپنے ازلی معلول کو مستلزم ہے؛