کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 151
اس کا وجود ممتنع ہے اور جب تک اس کا وجود ممکن اور جائز ہو گایعنی غیر لازم ہو گاتو وہ وجود میں نہیں آئیگا اور یہی وہ بات ہے جس کے قائل اہلِ سنت کے وہ آئمہ ہیں جو قدر کا اثبات کرتے ہیں اور اس بات فلاسفہ کے آئمہ نے ان کی موافقت بھی کرتے ہیں اور یہ وہ امر ہے کہ جس کے ذریعے انہوں نے اس بات پراستدلال کیا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کے خالق ہیں ۔
کامل قدرت اور یقینی ارادہ فعل کے وجود کا تقاضا کرتی ہے:
معتزلہ میں سے قدریہ اور ان کے علاوہ دیگر لوگ اس میں اختلاف کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ قادر ذات کے لیے یہ بات ممکن ہے کہ فعل کو ترک پر ترجیح دے؛ بغیر اس کے کہ کوئی ایسا کوئی امر پایا جائے جو فعل کو مستلزم ہو۔ اور انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر وہ ذات اس طور پر قادر نہیں تو لازم آئے گا کہ وہ مُوجِب بالذات ہیں قادر نہیں ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ: قادر ذات تو اس مختار ذات کو کہتے ہیں کہ جوجب چاہے تو کرے اور چاہے تو چھوڑ دے ۔پس جب یہ کہا جائے کہ اس پر لازم کئے بغیر کوئی فعل صادر نہیں کرتا[یعنی فعل کے کرنے کا کوئی مسلتزم پایا جائے] تو پھر وہ مختار نہ رہا بلکہ مجبور ہوا۔
تو جمہور اہل ملت نے اس کے جواب میں کہا کہ: بلکہ یہ تو خطاہے اس لیے کہ یقیناً وہ قادر ذات کہ جو اگر چاہے تو کرے اور چاہے تو چھوڑ دے ۔یہ وہ ذات نہیں ہے کہ اگر فعل کا پکا ارادہ کرے اور وہ اس پر قدرتِ تامہ کے ساتھ قادر ہو تو وہ فعل ممکن اور جائز رہے گا نہ کہ لازم اور واجب اور نہی ممتنع اور محال۔
بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ بات یقیناً معلوم ہے کہ وہ ذات جو قادرِ مختار ہے جب ارادہ کرتا ہے کسی فعل کا پکے ارادے کے ساتھ اس حال میں کہ وہ اس پر قدرتِ تامہ کے ساتھ قادربھی ہو؛تو اس سے فعل کا وجود لازم آجاتا ہے۔ اور وہ فعل واجب لغیرہ بن جاتا ہے نہ کہ واجب لنفسہ؛ جیسا کہ اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ: جو کچھ اللہ چاہتے ہیں وہ ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا۔ اور جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہتے ہیں تو اس پر وہ قادر ہیں ۔ پس وہ جب کسی چیز کو چاہیں گے تو اس کی مراد حاصل ہوگی؛ اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس پر قدر ت ہوگی؛ پس اس کا وجود لازم ہوگا ۔اور جس کو وہ نہیں چاہے گا وہ موجود نہیں ہوگا پس یقیناً اس نے اس کا ارادہ نہیں کیا؛ اگرچہ وہ اس پر قادر ہے۔ لیکن اس کے وجود کے لیے ایسا مقتضی نہیں پایا گیا جو اس کو عدم سے وجود میں لے آئے پس ایسے حال میں اس کا وجود جائز نہیں ۔
اہل اسلام کہتے ہیں : قدرتِ تامہ اور ارادہ جازمہ کے ساتھ عدمِ فعل ممتنع ہے۔ اور کسی فعل کا نہ پایا جانا صرف اسی صورت میں متصور نہیں ہو سکتا کہ یا تو اس پر کامل قدرت حاصل نہیں ہے یااس کے کرنے کا کامل ارادہ نہیں ہے ۔ اورایسی چیز تو انسان اپنی ذات میں بھی پاتا ہے اوریہ یقینی دلائل کے ساتھ معروف اور معلوم ہے۔