کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 150
ہے اور جو ممتنع تقدیر ہو تو تحقیق اس کے نتیجے میں حکمِ ممتنع ہی لازم آتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
﴿ لَوْ کَانَ فِیْہِمَا اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ [الانبیاء ۲۲]
’’ اگر زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود ہوتا تو ان دونوں میں فساد پیدا ہوجاتا۔‘‘
پس بے شک ان لوگوں کا قول یعنی جنس حوادث کے امکان[اس شرط پر کہ وہ مسبوق بالعدم ہوں ]کے لیے کوئی ابتداء نہیں اس بات کومتضمن ہے کہ جس چیز کے لیے ابتداء ثابت ہے اسی کے لیے ابتداء ثابت نہ ہو اس لیے کہ جو چیز بھی مسبوق بالعدم ہونے کے ساتھ مشروط ہو اس کے لیے ابتداء ہوتی ہے اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس کے لیے کوئی ابتداء نہیں یہ تو جمع بین النقیضین ہوا۔
اور یہ بھی کہا جائے گاکہ یہ ایک ایسی تقدیر ہے کہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں پس یہ کسی قائل کے اس قول کے بمنزلہ ہو اکہ کیا جنسِ حوادث کے امکان کے لیے کوئی انتہا ہے حالانکہ وہ مسبوق بالعدم بھی ہیں ؟یا ان کے امکان کے لیے کوئی انتہا نہیں ؟ پس جیسے کہ یہ بات جمع بین النقیضین کو مسلتزم ہے تو مأل کار کے طور پر تمہاری بات ابتداء میں جمع بین النقیضین کو مستلز م ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی ممکن کے دو طرفین [وجود وعدم ]میں سے ایک جانب کو ترجیح تب حاصل ہوتی ہے جب کوئی مرجحِ تام پائے جائے جس کی وجہ سے ممکن کو وجود ملے۔ اور بتحقیق یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے دو طرفین میں سے ایک کو ترجیح نہیں ہوگی یعنی وجود میں عدم پر مگر کسی ایسے مرجح تام کے ذریعے کہ جو اس ممکن کے وجود کو مستلزم ہو اور یہ دوسرا قول نسبتاً زیادہ درست ہے ۔جیسے کہ یہ ثابت ماننے والے مناظرین اسلام کا مسلک ہے۔کیونکہ یقیناً ممکن کے لیے حالتِ عدم میں بقاء ثابت کرنا کسی مرجح کی طرف محتاج نہیں ہے۔ اور جس نے کہا کہ یہ کسی مرجح کی طرف محتاج ہے؛ تو اس نے کہا کہ اس کے لیے کسی مرجح کا نہ پایا جانا ہی اس کے عدم کو مستلزم ہے۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ تو اس کے عدم کے لیے مستلزم ہوا یہ نہیں کہ بعینہ یہ عدم ہی وہ امر ہے جو اس کے عدم اور ناپید ہونے کے لیے مُوجب ہے اور نفسِ الامر میں اس سے اس کا عدم واجب اور ضروری نہیں ہو جاتا بلکہ نفس الامر میں معدوم اور نا پید ہونے کے لیے تو کوئی علت درکار ہی نہیں کیونکہ یقیناً معلول کا عدم علت کے عدم کو مستلز م ہوتا ہے یعنی جب معلول نہیں پایا جائے گا تو یہ لازم ہے کہ علت بھی نہیں پائی جائے گی اور ملزوم علت بننے سے اعم ہے کیونکہ وہ مرجحِ تام اگر ممکن کے وجو د کو مستلزم نہ ہو تو پھر ممکن کا وجود اس مرجحِ تام کے ساتھ جائز بنے گا نہ کہ واجب یاممتنع اور پھر ایسی صورت میں وہ ممکن ہی بنے گا پس وہ موقوف ہوگا کسی مرجح پر کیونکہ بے شک ممکن وہ صرف اورصرف مرجح کے نتیجے سے وجود میں آتاہے یعنی جو اس کے دو طرفین [وجود اور عدم ]میں سے وجود کو ترجیح دے۔
پس یہ بات اس پر دال ہے کہ اگر کسی ممکن کے لیے ایسا مرجح حاصل نہ ہو جو اس کے وجود کو مسلتزم ہو تو پھر