کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 149
:’’حوادث کا امکان اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ مسبوق بالعدم ہوتے ہیں جس کے لیے کوئی بدایت اور شروع نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک حوادث کا اپنی نوع کے اعتبار سے قدیم ہونا ممتنع ہے۔ بلکہ اس کے نوع کا حادث ہونا ضروری ہے لیکن کسی معین وقت میں اس کا حدوث معین نہیں ۔ پس حوادث کا ممکن ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ ایسے مسبوق بالعدم ہیں جن کے لیے کوئی اول نہیں بخلافِ جنسِ حوادث کے۔ تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ: فرض کر لو تم یہ بات کہتے ہو۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک جنسِ حوادث کے امکان کے لیے ایک ابتداء ہے۔ پس یقیناً جس طرح حدوث تمہارے نزدیک نا ممکن ہونے کے بعد ممکن بن گیا ؛ اور اس امکان کے لیے کوئی معین وقت نہیں ؛بلکہ کوئی بھی وقت فرض کر لیا جائے۔ تو امکان اس سے پہلے ثابت ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں لازم آتا ہے کہ امکان کو دائمی ماننا پڑ ے گا ورنہ لازم آئے گا کہ بغیر کسی چیز کے حدوث کے اور بغیر کسی نئے حال کے تجدد کے جنس حوادث امکان سے امتناع کی طرف بدل گئے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ بغیر کسی سبب کے تجدد کے جنسِ حدوث یا جنسِ حوادث یا جنسِ فعل یا جنسِ احداث ( یااس کے مشابہ جو دیگر عبارات ہیں )کی حقیقت کا امتناع سے امکان کی طرف بدل جانا (حالانکہ وہ پہلے ممتنع تھا )؛عقل کے صریح فیصلے کے مطابق ممتنع ہے۔ اور یہ اس بات کو بھی مستلزم ہے کہ کوئی جنس امتناعِ ذاتی سے امکانِ ذاتی کی طرف بدل جائے۔ کیونکہ یقیناً ان کے نزدیک جنسِ حوادث کی ذات ممتنع ہونے کے بعد ممکن بن جاتی ہے۔ اور یہ انقلاب کسی وقتِ معین کے ساتھ خاص نہیں اس لیے کہ یقیناً کسی بھی وقت کو اگر فرض کر لیا جائے گا تو امکان اس سے پہلے ثابت ہوگا لہٰذا لازم آیا کہ یہ حقیقت کا انقلاب امتناع سے امکان کی طرف ازل سے ثابت ہے جو اس بات کو مستلزم ہے کہ ممتنع ازل سے ممکن ہی تھا۔ اور یہ بات امتناع کے اعتبار سے زیادہ ابلغ اور عقلی اعتبار سے زیادہ ناجائز ہے ہمارے اس قول سے کہ حادث ازل سے ممکن ہے پس تحقیق جس مقصد اور جس نتیجہ سے یہ بھاگنا چاہتے تھے ان پر اس سے زیادہ شنیع اور فساد کے اعتبار سے زیادہ اشد بات کا الزام آگیا اس لیے کہ یقیناً یہ بات عقلا سمجھ میں آتی ہے کہ حادث ممکن ہے اور یہ بات بھی عقلا سمجھ میں آتی ہے کہ یہ امکان ازل سے ہے ۔رہا ممتنع کا ممکن بننا ؛تو وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے۔ پس یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ اس ممتنع کا امکان ازل سے ہے اور یہ بھی کہ جو شرط انہوں نے ذکر کی ہے کہ جنسِ فعل یا جنسِ حوادث کا ازل سے امکان اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ مسبوق بالعدم ہو ں ؛تو یہ شرط جمع بین النقیضین کو مستلزم ہے۔ اس لیے کہ اس کا ازل سے ہونے کا تقاضا ہے کہ اس کے امکان کے لیے کوئی ابتداء اور شروع نہیں اور اس کا امکان قدیم اور ازلی ہواور اس کا مسبوق بالعدم ہونے کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے کوئی ابتداء ہے جو کہ قدیم اور ازلی نہیں ۔ پس ان کا یہ قول اس بات کو مستلزم ہوا کہ حوادث کے لیے کوئی ابتداء ثابت ہوناضروری ہو۔اور یہ بھی کہ ضروری نہیں ۔ بے شک انہوں نے ایک ایسی بات فرض کی ہے جو ممتنع