کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 147
مذمت کی ہے ۔یقیناً یہ لوگ جب اس بات کے معتقد ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ازل میں اس حال پر تھے کہ اس سے اس کی مشیئت اور قدرت کے ذریعے فعل اور کلام کا صادر ہونا ممتنع تھا۔ ان کے اس عقیدہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ازل میں اپنی مشیت اور قدر ت کے ذریعے کلام اور فعل پر قادر نہیں تھا۔ کیونکہ یہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے اور جو کام ممتنع ہو وہ مقدور کے تحت داخل نہیں ہوتا ۔پھر یہ لوگ اس مسئلہ میں دو گروہوں میں بٹ گئے ۔
ایک گروہ نے کہا کہ: وہ فعل اور کلام پر قادر ہوا بعد اس کے کہ وہ پہلے قادر نہیں تھا؛ کیونکہ اس کے لئے فعل اور کلام پہلے ممتنع تھے پھر ممکن ہوئے۔ اور یقیناً اس کے فعل اور کلام کاامتناعِ امکانِ ذاتی میں بدل گیا۔ یہی معتزلہ اور جہمیہ اور ان شیعوں کا کا عقیدہ ہے جنہوں نے ان کی موافقت کی ہے۔جیسے کرامیہ اورائمہ شیعہ؛ ہاشمیہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ۔
اور دوسری جماعت نے کہا کہ:پہلے اس کی ذات سے فعل کا صادر ہونا ممتنع تھا بعد میں فعل ممکن ہوا ۔رہا کلام تو وہ مشیت اور قدرت کے تحت داخل ہی نہیں ؛ بلکہ وہ تو ایک ایسی چیز ہے جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہے۔ یہ عقیدہ ابن کلاب ،اشعری اور ان کے ہم نواؤوں کا ہے۔[1]
ان کے اس مسلک کی تعبیر یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ اس کا کلام حروف ہیں یا ایسے حروف اورآوازیں ہیں جو اپنی ذات کے اعتبار سے قدیم ہیں اور وہ اس کی مشیت اور قدرت سے متعلق نہیں ہیں ،یہ عقیدہ اہلِ کلام میں سے کئی جماعتوں ؛بعض محدثین اور فقہاء کا بھی کا ہے ۔ اس کی نسبت فرقہ سالمیہ کی طرف کی جاتی ہے۔[2]
اور شہرستانی نے الملل والنحل میں سلف صالحین اوربعض حنابلہ سے بھی یہ نقل کیا ہے۔ یہ جمہور آئمہ حنابلہ کا
[1] ابن کلاب (کاف پر پیش اور لام مشدد کے ساتھ) ابو عبداللہ بن سعید بن محمد بن کلاب القطان المتوفی سنۃ ۲۴۰ہجری۔ علامہ شہرستانی نے الملل والنحل ۱؍۸۵؛ اشعری نے مقالات ۱؍۳۲۵؛ ابن طاہری بغدادی اصول الدین ۲۵۴ ؛ ان علماء نے اسے متکلمین اہل سنت میں شمار کیا ہے۔ ابن حزم نے الفصل ۵؍۷۷ پر کہا ہے: یہ اشعریہ کا پرانا شیخ ہے ۔ سید مرتضی زبیدی نے شرح القاموس میں کہا ہے: ابن کلاب اس کا لقب مجلس میں شدت مناظرہ کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے کسی دادے کا نام کلاب ہو۔ اس کا یہ مناظرہ مامون کے زمانے میں معتزلہ کے ساتھ ہوا تھا۔ دیکھیں : طبقات الشافعیہ الکبری لابن السبکی ۲؍۵۱۔
۲۔ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری (۲۶۰ ہجری تا ۳۳۴ ہجری)۔ آپ کا شمار کبار ائمہ متکلمین میں ہوتا ہے۔ پہلے آپ معتزلی مذہب پر تھے۔ علی الجبائی سے تعلیم حاصل کی۔ پھر آپ کی بصیرت کے دروازے اللہ نے کھول دیے اور آپ نے تقریباً اپنی آدھی عمر میں ۳۰۴ہجری میں اعتزالی گمراہیوں سے رجوع کا اعلان کیا۔ اس دور میں آپ نے تصنیف و تألیف ؛ درس و تدریس اور معتزلہ پر خوب رد کیا ۔اس عرصہ آپ سلف اور معتزلہ کے درمیانی راستہ پر چلتے رہے ۔ پھر آپ نے خالص سلف کے مسلک کی طرف رجوع کر لیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے ان تمام غیبی امور کو تسلیم کرنا شروع کردیا۔ اس آخری عہد میں آپ نے اپنی مشہور کتاب ’’الابانہ ‘‘ تألیف کی۔ دیکھیں : شذرات الذہب ۔
[2] سالمیہ : ابو عبداللہ محمد بن سالم (المتوفی ۲۹۷ہجری) کے پیروکاروں کو سالمیہ کہا جاتا ہے۔ سالمیہ متکلمین اہل سنت اور معتزلہ کی درمیانی راہ پر چلتے تھے اس کے ساتھ ہی ان میں کچھ تشبیہ اور تصوف اور اتحاد بھی پایا جاتا تھا۔ دیکھیں : شذرات الذہب ۳؍۳۶۔ طبقات الصوفیہ ۴۱۴۔ الطبقات الکبری للشعرانی ۹۹۔ الفرق بین الفرق ص ۱۵۷۔