کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 146
اور اس کے بعض اوقات حدوث کے ساتھ خاص ہو تے ہیں بوجہ اس کے کہ استعداد وقتاً فوقتاً متجدد ہوتا ہے یعنی فعل کو کرنے کی قوت اور استعداد وقتاً فوقتاً وجو د میں آتی ہے اور استعداد کا حادث ہونا بھی حرکات کے حادث ہونے کا سبب ہے۔
یہ ایک باطل کلام ہے۔ اس لیے کہ یقیناً یہ اس وقت متصور ہوتاہے جب وہ فاعل جو ہمیشہ سے فیاض ہے بعینہ وہی ذات استعداد کو پیدا کرنے والی نہ ہو؛ جیسے کہ عقلِ فعال میں ان کا دعویٰ ہے۔یہ کہتے ہیں کہ وہ ذات فیض کے اعتبار سے تو دائم ہے لیکن وہ ِ حرکاتِ افلاک اور اتصالات کواکب کے حادث ہونے کے سبب قبول کرنے کی استعداد کو وجود دیتا ہے اور وہ توعقلِ فعال سے صادر نہیں ہیں بلکہ بے شک وہ تو مبداعِ اول میں ہیں اور وہی اپنے ماسوا تمام کامبدع یعنی از سرِ نوع پیدا کرنے والا ہے۔ پس اسی کی ذات سے استعداد ،صفت ِ قبول ،قبول کرنے والا اور مقبول یعنی جسے قبول کیا جائے چاروں صادر ہوتے ہیں ۔پس ایسی صورت میں کہا جائے گا کہ جب وہ علتِ تامہ ہے اور اپنی ذات کے اعتبار سے مُوجِب ہے اور وہ ایسا دائم الفیض ہے کہ اس کا فیض کسی بھی چیز پر اپنی ذات کے علاوہ کسی اور چیز پر موقوف نہیں ، تو لازم آئے گا کہ اس کی ذات سے جو کچھ بھی صادر ہو رہا ہے خواہ واسطہ سے ہو یا بلاواسطہ ،وہ اس کی ذات کے لیے لازم ہو اور اس کے قدیم ہونے کی وجہ سے قدیم ہو، پس اس سے کوئی بھی ایسی چیز صادر نہیں ہو سکتی نہ بالواسطہ نہ بلا واسطہ۔ اس لیے کہ اس کا فعل اور اس کاوصف ابداع ،ایسی استعداد اور قبول پر موقوف نہیں جو اس کی ذات کے علاوہ کسی اور سے پیدا ہوں ۔ بلکہ وہی ذات شرط ،مشروط ،قابل ،مقبول اور استعداد سب کی مبدع ہے۔ اوراس فیضان کا بھی جو وہ مستعد پر کرتاہے اور جب وہ ذات اکیلے ہی ان تمام امور کا فاعل ہیں تو یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ ایسی علتِ تامہ ازلیہ بنے جو اپنے معلول کے لئے مستلزم ہو اس لیے کہ یہ اس بات کو لازم ہے کہ اس کے تمام معلول بھی ازلی ہوں اور اس کے قدیم ہونے کی وجہ سے قدیم ہوں اور اس کی ذات کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اس کے لیے معلول ہوں پس لازم آئے گا کہ اس کی ذات کے ماسوا جو کچھ بھی ہے وہ قدیم اور ازلی ہو اور یہ تو مشاہدہ کے واضح طور پر خلاف ہے اور جس نے بھی اس میں غور کیا اور اِس کو سمجھا تو اس کے سامنے ان لوگوں کے عقیدہ کا فسادواضح ہوا جو عالم کے قدم کے قائل ہیں ۔
[.... حوادث کے وجود سے انکار کرنا]
متکلمین کا ایسے حوادث کے وجود سے انکار کرنا جن کے لیے کوئی اول اور مبداء نہ ہو اور اس انکار کے نتائج :
ان لوگوں (متکلمین )کی دلیل اور شان و شوکت ان اہل کلام پرغالب ہے جنھوں نے اس باب میں اپنی طرف سے ایک نئی بات گھڑی ہے جس کی سلفِ صالحین؛اور جہمیہ اور معتزلہ کے آئمہ نے بھی اور ان لوگوں نے بھی جو ان کے ہم نوا ہیں یعنی اشعریہ ،کرامیہ ،شیعہ اور آئمہ اربعہ کے اتباع اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات نے