کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 145
دوسرے جزء کوطے کرنا پہلے جزء کو طے کرنے کے ساتھ مشروط ہے۔ کیونکہ جب وہ جزء اول طے کر لیتا ہے تو اس کے لیے قدرۃ ،ارادۃ اور دیگر وہ امور وجود میں آجاتے ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور انہی امور کی مدد سے جزء ثانی کو طے کرتا ہے۔ایسا تو نہیں ہے کہ صرف جزء اول کے طے کرنے سے وہ جزء ثانی کو بھی طے کرنے والا ھوا(گویا جزء ثانی کو قطع کرتے وقت اس کا حال اُس حال کے مغایر ہے جو جزء اول کو طے کرتے وقت تھا)۔پس جب ان فلاسفہ نے اللہ تعالیٰ کا حوادث کی تخلیق کو اس کے مشابہ قرار دیا تو اس سے یہ لازم آیا کہ حوادث کو پیدا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے نئے نئے احوال ثابت ہوں گے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوں ۔ ورنہ اگر اسے ایک ہی حال پر قائم مانا جائے تو پھر مطلب یہ ہوا کہ دوسرے آن میں حادث ہونے والا حادثِ اول کے محض فنا اور متلاشی ہونے سے پیدا ہوا۔ اور اس کے وجود میں آنے سے پہلے اور بعد کے دونوں اوقات میں اس کا حال ایک ہی ہے۔(جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ) صفت ِ احداث کے ساتھ دو وقتوں میں سے ایک کے اختصاص کے لیے کسی مخصِّص کا ہونا ضروری ہے۔( اور حوادث کے وجو دمیں آنے کے لیے کسی فاعل کا ہونا ضروری ہے جبکہ پہلے سے مفروض یہ ہے کہ وہ ذات ازل سے ابد تک ایک ہی حال پر قائم ہے ۔لہٰذا اس تقدیر پر کسی وقت کا ایک حادث کے حدوث کیساتھ اختصاص ممتنع ہو جائے گا کیونکہ جب وہ اس وقت موجود تھا جس وقت حوادث کو پیدا نہیں کر رہا تھا اور وہ ذات اب بھی پہلے کی طرح ہے ؛ تو (نتیجہ نکلا کہ) وہ اب بھی اس حادث کا فاعل نہیں ۔ ابن سینا اور اس کے ہم نواوہ لوگ جوعالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی بات سے معتزلہ ،جہمیہ اور ان کے ہم نوامتکلمین کے خلاف استدلال کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ: جب وہ ذات باری تعالیٰ ازل میں تھی؛ اور کوئی کام نہیں کر رہی تھی اور وہ بھی اسی حال پر ہے؛ پس وہ اب بھی کوئی کام کرنے والی نہیں ۔ حالانکہ مفروض یہ ہے کہ وہ کام کرنے والی ہے ۔یہی دلیل بعد کے متکلمین فلاسفہ کیہے اور یہ بات اس لئے لازم آئی کہ ایک ایسی ذات کو فرض کیا گیاجو فعل اور کام کرنے سے معطل ہے ۔پس ان سے کہا جائے گا یہی بات بعینہ تمہارے خلاف ایک ایسی ذات بسیطۃ کے اثبات میں حجت بنتی ہے جس کے ساتھ نہ کوئی فعل قائم ہے اور نہ کوئی وصف ؛ اس کے باوجود اس سے حوادث صادر ہورہے ہیں ۔ پس اگر حوادث کا صدور ایسے واسطوں کے ذریعے ہو جو اس ذات کے لیے لازم ہیں تو جو واسطہ اس ذات کے لیے لازم ہے وہ بھی اس کے قدیم ہونے کی وجہ سے قدیم ہوگا۔ حالانکہ انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ حوادث کا صدور ایسی قدیم ذات سے ممتنع ہے جو ازل سے ایک ہی حال پر قائم ہے جیسے وہ پہلے تھی ۔ تیسری وجہ : وہ یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے فیاض ہے۔