کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 144
مشیت اور قدرت کے ذریعے وجود دیتا ہے تو ان تمام صورتوں میں ضروری ہے کہ وہ فاعل اپنے مفعول کے وجود کے وقت موجود ہو۔ اور یہ ممتنع ہے کہ مفعول کے وجود میں آنے کے وقت فاعل معدوم ہو کیونکہ معدوم کسی موجود کا سبب نہیں بن سکتا ۔اور اس فاعل کا نفسِ فعل اور اس کے وجود کا تقاضا کرنا اور اس کا احداث یہ سب اس معین اور خاص مفعول کے وجود میں آنے کے وقت بالفعل ثابت ہونا ضروری ہے۔ پس وہ فاعل حقیقتاً فاعل اس وقت بنے گا جب مفعول وجود میں آئے گا ۔پس اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس ذات نے فعل کو انجام دیا اور اس کا ارادہ بھی کیا اوراس کے بعد وہ وجود میں آیا جیسے کہ ہر حادث کی صفت ہے تو اس سے لازم آئے گا کہ اس کا فعل اور اس کا ایجاب اس مفعول کی غیر موجودگی میں پایا گیا جس کو وہ اپنی قدرت سے وجود دے رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس مفعول کے وجود میں آنے سے پہلے کوئی ایجاب ،احداث اور کوئی فعل متحقق نہیں ۔ اور جب یہ ثابت ہوا تو اب دیکھئے کہ وہ ذات جو حوادث کو وجود دینے والا ہے ،اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ دوسرا حادث پہلے کے بعد (یعنی الگ زمان میں )پیدا کرتا ہے؛تو بغیر اس کے کہ خود اس کی ذات کے لیے کوئی ایسا نیا حال پیدا ہو جس کے ذریعے وہ دوسرا فعل کرنے والا ہے (یعنی پہلے کو وجود دیتے وقت جس حال پر تھا دوسرے کے احداث کے وقت بھی اسی حال پر ہے )تو لازم آئے گا کہ وہ ذات جو موثر تام ہے اثر کے وجود کے وقت معدوم تھی۔ اور یہ محال ہے۔ اس لیے کہ یقیناً اس ذاتِ ازلی کی حالت اثر کے وجود اور عدمِ وجود دونوں اوقات میں برابر اور ایک جیسے ہے۔ اور ا س سے پہلے تو اس کا فاعل ہونا ممتنع تھا تو اس وقت بھی ایسا ہی ہوگا ۔یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس حال سے پہلے وہ فاعل نہیں تھا تو اس کے ہوتے ہوئے بھی وہ فاعل نہیں ہوگا ۔کیونکہ اگر اس بات کو ممکن مانا جائے کہ فاعل کے لیے کسی نئے حال پیدا ہونے کے بغیر دوسرا حادث پیدا ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں تمام حوادث کا بلا سبب پیدا ہونا لازم آئے گا۔ اور ممکن کے دو طرفین یعنی وجود اور عدم میں سے فاعل کا کسی ایک جانب کو بلکہ اس کے وجود کو بلا مرجح ترجیح دینا لازم آئے گا ۔کیونکہ یہ بات تو پہلے سے مانی گئی ہے کہ حادث کے وجود سے پہلے ،اس کے وجود میں آنے کے وقت اور وجود میں آنے کے بعد تینوں اوقات میں اس فاعل کی حالت ایک طرح ہے۔ پس اس حادث کے وجود کے ساتھ بعض اوقات کی تخصیص یعنی اسے اس وقت میں فاعل قراردینا ،تخصیص بلا مخصص ہوگی۔ اوراگر یہ ممکن ہوتا تو پھر تو تمام حوادث کابغیر کسی سبب ِ حادث کے پیدا ہونا ممکن ہوجاتا اور ان کا عقیدہ باطل ہوجاتا۔اور اگر یہ ممکن نہیں یعنی بغیر کسی مخصص کے حادث کے وجود کیساتھ بعض اوقات کی تخصیص کرنا تو ان کا عقیدہ بھی باطل ہوا۔ پس ان دونوں نقیضین کی تقدیر پر ایسے مادہ پرست فلاسفہ کے عقیدہ کا بطلان بھی ثابت ہوا اور یہ اس کو مستلزم ہے کہ نفس الامر میں بھی یہ باطل ہے۔ اس کو اس مثال سے یوں سمجھئے کہ جب کوئی شخص راستہ طے کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا مسافت کے