کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 143
ہے، تو وہ عقیدہ باطل ہو گا کیونکہ ایسا عقیدہ اس بات کو مستلزم ہے کہ باری تعالیٰ اس طور پر موجب بالذات ہو کہ اس کا موجب اس کے مقارن ہو۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس شے کو اپنے مقارن نہ کرتا اور اگر وہ موجب بالذات ہوتا تو اس کے موجب و مقتضی میں سے کوئی شے اس سے متاخر نہ ہوتی۔ جس سے لازماً یہ لازم آتا کہ سرے سے عالم میں کوئی حادث شے ہونی ہی نہیں چاہیے۔ رب تعالیٰ فلک کے لیے موجب بالذات ہے .... اس عقیدہ کا ردّ و بطلان: اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ فلک کے لیے موجب بالذات ہے اور وہ فلک کی حرکات کو ایک کے بعد ایک کر کے واجب کرتا ہے تو یہ عقیدہ کئی اعتبار سے باطل ہے۔ پہلی وجہ : یہ کہ ان سے یہ کہا جائے گا کہ اگر فلک کی حرکت اس کے لیے لازم ہے جیسے کہ ان کی رائے ہے تو لازم آئے گا کہ ملزوم کے لازم کے بغیر پیدا کیا جو کہ ممتنع ہے اور اللہ تعالیٰ کا حرکتِ فلک کے لیے مُوجِب بالذات یعنی علت تامہ ازلیہ ہونا بھی ممتنع ہے کیونکہ حرکت تھوڑا تھوڑا کر کے وجود میں آتی ہے۔ اور وہ علتِ تامہ جو ازل میں اپنے معلوم کو پیدا کرنے والی ہو وہ اپنے معلوم سے بالکل مؤخر نہیں ہوتی۔پس حرکت ِ فلک اس علتِ تامہ ازلیہ کا معلوم نہیں بن سکتی جس کے ساتھ اس کے معلوم کا وجوب لازم ہے۔ اور اگر فلک کی حرکت اس کے لیے لازم نہ ہو تو پھر وہ حادث ہوگی۔ پس اس کے لیے ایک ایسے سبب کا ہونا ضروری ہے جو واجب بالذات اور حادث ہو؟ اور یہ حرکت اپنے حدوث کی وجہ سے ایسی علتِ تامہ ازلیہ سے صادر نہیں ہو سکتی جس سے اس کا موجب کچھ بھی جدا نہیں ہو سکتا ۔اسی وجہ سے ان لوگوں کا عقیدہ جو حوادث کو علتِ تامہ ازلیہ سے پیدا ہونے والا مانتے ہیں سخت ترین فساد کا شکار ہے؛ بہ نسبت ان لوگوں کے عقیدہ سے جو یہ کہتے ہیں کہ تمام حوادث ایک قدرت والی ذات سے بغیر سبب ِ حادث کیپیدا ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ یہ دوسرا فریق حوادث کے لیے فاعل کو تو ثابت کرتا ہے لیکن کسی سبب ِ حادث کو ثابت نہیں کرتا۔ اور ان لوگوں کے عقیدہ سے لازم آتا ہے کہ تمام حوادث کے لیے کوئی فاعل نہ ہو۔کیونکہ وہ علت ِ تامہ جو ازل میں اپنی ذات کے اعتبار سے حوادث ک لیے مُوجِب ہے وہ کسی بھی چیز کو صفت ِ حدوث کے ساتھ نہیں پیدا کرے گی؛ اور اسی وجہ سے ان کے نزدیک حوادث فلک کی حرکت سے پیدا ہوتے ہیں ؛ اور وہ فلک سے اوپر کوئی ایسی چیز نہیں مانتے جس کی حرکت اللہ نے پیدا کی ہو۔ بلکہ آسمانوں اور تمام باقی حوادث کی حرکا ت میں ان کا عقیدہ افعالِ حیوانات میں قدریہ کے عقیدہ کی طرح ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں کی حرکات اور باقی حوادث بغیر کسی سبب ِ حادث کے پیدا ہوئے ہیں ۔ لیکن قدریہ نے اسے حیوانات کے احوال کے ساتھ خاص کر دیا اور انہوں نے کہا ہے :یہ ہر حادث میں ہے خواہ عالمِ بالا کا ہو یا عالم سفلی کا۔ دوسری وجہ کا بیان : فاعل کوخواہ قادر مانا جائے یا مُوجِب بالذات؛ یا یہ کہا جائے کہ وہ ایسا قادر ہے جو اپنی