کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 142
ان کا فاعل ازل کی علت تامہ نہیں اور جب ازل میں علت تامہ منتفی ہو گئی تو عالَم میں کسی شے کے قدیم ہونے کا عقیدہ بھی باطل ہو گیا۔ لیکن اس سے اس بات کی نفی لازم نہیں آتی کہ اللہ ہمیشہ سے متکلم ہے، جب چاہے اور ہمیشہ سے زندہ اور جو چاہے اس کے لیے فعال ہے۔ فلاسفہ کے عقیدہ کہ عالم قدیم ہے، کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حدوثِ حوادث سبب حادث کے بغیر ممتنع ہے۔ لہٰذا یہ بات فرض کرنا ممنع ہوگی کہ ایک ذات جو پہلے فعل سے معطل تھی اور کوئی فعل نہ کر ریہ تھی وہ اب کسی سبب کے حدوث کے بغیر فعل کرنے لگے۔ لیکن یہ عقیدہ عالم میں یا افلاک میں کسی معین شے کے قدیم ہونے پر دلالت نہیں کر رہا بلکہ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ اللہ ہمیشہ سے فعال ہے اور اگر فرض کیا کہ وہ ایسے افعال کے ساتھ فعال ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں یا وہ مفعولاتِ حادثہ کے ساتھ فعال ہے جو ایک کے بعد ایک واقع ہوتے ہیں ۔ تو یہ قول اس دلیل کے موجب کو پورا کرنے والا ہے۔ جبکہ ساتھ میں یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ کے سوا ہر شے حادث اور مخلوق ہے اور عدم کے بعد وجود میں آئی ہے۔ جیسا کہ رسولوں نے اس بات کی خبر دی ہے کہ ہر شے کا خالق اللہ ہے۔ اگرچہ نوع متجدد ہوتی رہتی ہے جیسا کہ حوادث مستقبلیہ میں ہے کہ ان میں سے ہر ایک حادث اور مخلوق ہے اور وہ ذات ہمیشہ سے ایک کے بعد ایک شے کو پیدا کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اس نے زمینوں اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا ہے، پھر وہ عرش کی طرف متوجہ ہوا اور بتلایا ہے کہ وہ ہر شے کا خالق ہے اور مخلوق پہلے معدوم تھی۔ قرآن بتلاتا ہے اللہ کے سوا ہر شے مخلوق اور حادث اور مفعول ہے۔ اور موجودات میں سے کوئی شے رب تعالیٰ کے ہم پلہ، ہم سر اور برابر کی نہیں ۔ جیسا کہ یہ دہریے فلاسفہ اس بات کے قائل ہیں کہ عالم اس کا معلول ہے اور وہ عالم کا موجب و مفیض ہے اور وہ عالم پر شرف و علو اور طبع کے ساتھ متقدم ہے نہ کہ زمانی اعتبار سے متقدم ہے، کیونکہ اگر وہ ایسی علت ہوتا جو تامہ اور موجب ہوتی۔ اور اس کا معلول اس کے ساتھ مقارن ہوتا جیسا کہ ان دہریوں کا گمان ہے۔ تو عالم میں سرے سے کوئی حادث شے ہوتی ہی نہیں ۔ کیونکہ وہ حادث ایسی علت تامہ ازلیہ سے صادر نہیں ہو سکتا جو اس کے معلول کے ساتھ مقترن ہو۔ کیونکہ معین حادث ازلی نہیں ہوتا۔ اور چاہے یہ کہا جائے کہ اس نے کسی واسطہ سے یا واسطہ اس شے کو حادث کیا جیسا کہ ان فلاسفہ کا عقیدہ ہے کہ یہ فلک ایک یا دو عقلوں کے واسطہ سے اس ذات سے پیدا ہوا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے اقوال کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ہر وہ عقیدہ جو اس بات کو تقاضا کرتا ہو کہ اس عالَم میں ایک شے قدیم ہے جو اللہ کی ذات کو لازم