کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 141
انکار صرف جہم بن صفوان نے کیا تھا۔ جس کا گمان تھا کہ جنت اور جہنم دونوں فنا ہو جائیں گے اور ابو ہذیل علاف[1]اس بات کا قائل ہے کہ جنتیوں اور جہنمیوں کی حرکات ختم ہو جائیں گی اور وہ دائمی سکون میں آ جائیں گے۔ کیونکہ ان لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ تسلسل حوادثِ ماضیہ و مستقبلیہ دونوں میں ممتنع ہے۔ ان لوگوں کے اسی قول کی بنا پر ائمہ اسلام نے انھیں گمراہ قرار دیا ہے۔
پھر حوادث ماضیہ میں تسلسل کی بابت بھی اہل اسلام (اہل حدیث اور اہل کلام وغیرہ) کے دو اقوال ہیں ۔ چنانچہ ایک قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ ہمیشہ سے جب چاہے متکلم ہے اور جب چاہے فعال ہے جو افعال کے اس کی قدرت و مشیت کے ساتھ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں جو ایک کے بعد ایک ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنی مشیت سے ہمیشہ سے متکلم ہے اور اپنی مشیت سے ایک کے بعد ایک فعل میں اپنی مشیت کے ساتھ فعال ہے اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ اللہ کے سوا ہر چیز حادیث ہے مخلوق ہے اور عدم سے وجود میں آئی ہے اور اس جہان میں اللہ کے ہم پلہ کوئی شے قدیم نہیں ہے جیسا کہ فلاسفہ جو افلاک کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور یہ کہ یہ افلاک اپنے وجود میں اللہ کے مساوی ہیں ۔ بلاشبہ اہل اسلام میں سے یہ عقیدہ کسی کا بھی نہیں ۔
فلاسفہ کے عقیدہ کہ ’’عالَم قدیم ہے‘‘ پر ردّ کی مزید تفصیل:
عالَم کے قدیم ہونے کے عقیدہ کا اجمالی رد:.... ہم نے متعدد مواقع پر اس عقیدہ کے فاسد و باطل ہونے کو مفصل بیان کر دیا ہے اور ہم نے وہاں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ کہ مبدعِ یہ علت تامہ ہے اور موجب بالذات ہے کہ خود یہ عقیدہ ان کے اس عقیدہ (کہ عالم قدیم ہے) کے فاسد ہونے کو مستلزم ہے۔ کیونکہ علت تامہ اپنے معلول کو مستلزم ہے لہٰذا اس کے معلول میں سے کسی چیز کا اس سے متاخر ہونا جائز نہ ہو گا۔
اب عالم میں حوادث مشہور ہیں ۔ اب اگر صانع موجب بالذات اور ایسی علت تامہ ہوتا جو اپنے معلول کو مستلزم ہو، تو وجود میں کوئی حادث واقع نہ ہوتا۔ کیونکہ حادث کا علت تامہ ازلیہ سے صادر ہونا ممتنع ہے۔ پس اگر عالَم قدیم ہوتا تو اس کا مبدع علت تامہ ہوتا اور علت تامہ کے علول میں سے کسی چیز کا تاخر جائز نہیں ۔ سو اس سے یہ لازم آیا کہ سرے سے عالم میں کسی شے کا حدوث ہو ہی نہیں ۔ پس حوادث کا حدوث اس بات کی دلیل ہے کہ
[1] یہ ابو ہذیل محمد بن ہذیل بن عبداللہ بن مکحول العبدی العلاف ہے، بصرہ کے معتزلہ کا شیخ اور ہذلیہ فرقہ کا بانی مبانی ہے۔ بصرہ میں ۱۳۵ھ میں پیدا ہوا اور ۲۲۶ھ میں وفات پائی۔ (ایک قول، ۲۲۷ھ میں اور ایک قول ۲۳۶ھ میں وفات پانے کا بھی ہے) شہرستانی ’’الملل و النحل‘‘ (۱؍۵۴) کہتے ہیں : ابو ہذیب نے جملہ معتزلہ سے جس بات میں تفرد کیا ہے، وہ اس کا یہ قول ہے: ’’جنت اور جہنم والوں کی حرکات ختم ہو جائیں گی اور وہ دائمی بے حسی اور سکون و خمود میں آ جائیں گے۔ پھر اسی سکون میں اہل جنت کی جملہ لذتیں اور اہل نار کے جملہ آلام جمع ہو جائیں گے۔‘‘ لیکن یہ جہم کے قول کے قریب قریب قول ہے جو جنت اور جہنم کے فنا ہو جانے کا قائل ہے۔ ابوہذیل کے ترجمہ و مذہب کی۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : لسان المیزان: ۵؍۴۱۳۔۴۱۴۔ ابن خلکان: ۳؍۳۹۶۔۳۹۷۔ تاریخ بغداد: ۳؍۳۶۶۔۳۷۰۔ الملل و النحل: ۱؍۵۳۔۵۶)