کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 140
لاجواب کر کے رکھ دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ علت جس کی بنا پر رب تعالیٰ نے ایک فعل کیا ہے۔
اگر تو رب تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے اس علت کا عدم اور وجود برابر ہے تو اس علت ک اعلت ہونا ممتنع ٹھہرا اور اگر اس کا وجود اولیٰ ہے، پھر اگر وہ علت باری تعالیٰ کی ذات سے منفصل ہے تو لازم آیا کہ اللہ اس غیر کے ساتھ کامل ہو اور اگر وہ علت اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے تو ذاتِ باری تعالیٰ کا محل حوادث ہونا لازم آیا۔
اب تعلیل کو جائز کہنے والوں میں نزاع ہے۔ چنانچہ معتزلہ اور ان کے خوشہ چین شیعہ ایسی علت ثابت کرتے ہیں جو غیر معقول ہے۔ وہ یہ کہ اللہ ایسی علت کی وجہ سے فعل کرتا ہے جو اس کی ذات سے منفصل ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کی طرف نسبت کے اعتبار سے علت کا عدم اور وجود برابر ہے۔
رہے علت کے قائل اہل سنت تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ محبت کرتا ہے اور پسند کرتا ہے جیسا کہ کتاب و سنت کی اس پر دلالت ہے، ان کا قول ہے کہ محبت و رضا یہ ارادہ سے اخص ہے۔
ادھر معتزلہ اور اصحاب اشعری کہتے ہیں : محبت، رضا اور ارادہ سب ایک جیسا ہے۔ جمہور اہل سنت کا قول ہے اللہ کفر اور فسق و عصیان کو نہ محبوب رکھتا ہے اور نہ ان چیزوں سے راضی ہے۔ چاہے یہ چیزیں اس کی مراد میں داخل بھی ہیں ۔ جیسا کہ جملہ مخلوقات اس کی مراد میں داخل ہیں ۔ کیونکہ اس میں حکمت ہے۔ چاہے یہ چیزیں اس کی مراد میں داخل بھی ہیں ، جیسا کہ جملہ مخلوقات اس کی مراد میں داخل ہیں ۔ کیونکہ اس میں حکمت ہے۔ چاہے وہ فعل فاعل کی طرف نسبت کے اعتبار سے شر ہو، کیونکہ یہ بات نہیں کہ کسی شخص کی طرف نسبت کے اعتبار سے اگر ایک بات شر ہو تو وہ شخص حکمت سے خالی بھی ضرور ہی ہو گا۔ بلکہ اللہ کی اپنی مخلوقات میں بے شمار حکمتیں ہیں کہ جن کو کوئی تو جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا۔
[تسلسل کا جواب ]
یہ لوگ تسلسل کے دو جواب دیتے ہیں :
۱۔ ایک یہ کہ یہ تسلسل حوادثِ مستقبلیہ میں ہے نہ کہ حوادثِ ماضیہ میں ، کیونکہ رب تعالیٰ جب کسی فعل کو کسی حکمت سے کرتا ہے تو وہ حکمت فعل کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ پھر جب اس حکمت کے بعد اس حکمت سے ایک اور حکمت طلب کی جائے تو یہ تسلسل مستقبل میں ہو گا اور وہ حکمت حاصلہ اسے محبوب ہو گی اور دوسری حکمت کے حصول کا سبب بھی ہو گی۔ پس رب تعالیٰ ایسی حکمتوں کو پیدا فرماتے رہتے ہیں جو اسے محبوب ہوتی ہیں اور انھیں اپنی محبوبات کا سبب بناتے رہتے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں تسلسل میں جمہور مسلمانوں اور دوسری تمام ملتوں کے نزدیک جائز ہے۔ کیونکہ جنت کی نعمتیں اور جہنم کے عذاب دونوں دائمی ہیں حالانکہ دونوں میں حوادث کا تجدد بھی ہوتا ہے۔ اس بات کا