کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 139
قرآن کریم میں جن افعال الٰہیہ کا ذکر آیا ہے ان میں لام تعلیل نہیں بلکہ لام عاقبت ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کے افعال معلل نہیں ہیں )۔ بخلاف ازیں جمہور کے نزدیک لام تعلیل اللہ تعالیٰ کے افعال و احکام میں داخل ہے۔ قاضی ابو یعلیٰ ؛ ابو الحسن بن الزاغونی اور ان کے ہم نوا و ہم خیال امام احمد رحمہ اللہ کے ساتھی اگرچہ پہلے قول کے قائل ہیں ‘ لیکن کئی ایک مقامات پر ان سب سے یہ دوسرا قول بھی منقول ہے۔ اور امام شافعی ‘ امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں اور دیگر فقہاء سے بھی اس طرح کا قول منقول ہے۔ اب ابن عقیل، قاضی (بعض مواقع پر) ابوخازم بن القاضی ابی یعلی اور ابو الخطاب وغیرہ رب تعالیٰ کے افعال میں حکمت اور تعلیل کی تصریح کرتے ہیں جو اس باب میں اہل نظر کے قول کے موافق ہے اور منفیہ جو اہل سنت ہیں اور تقدیر کے قائل ہیں ، ان کے جمہور کا قول تعلیل اور مصالح کا ہے۔ ادھر کرامیہ بھی تعلیل کے قائل ہیں ، جوتقدیر مانتے ہیں اور جو جنابِ ابوبکر، جناب عمر اور جناب عثمان رضی اللہ عنہم کے لیے تفضیل خلافت کے قائل بھی ہیں کہ یہ بھی تعلیل اور حکمت کا قول کرتے ہیں ۔ پھر امام مالک امام شافعی اور امام احمد کے اکثر اصحاب تعلیل، حکمت اور عقلی تحسین و تقبیح کے قائل ہیں جیسے ابوبکر قفّال ابو علی بن ابی ہریرہ وغیرہ اصحاب شافعی اور اصحاب احمد میں سے ابو الحسین تمیمی اور ابو الخطاب وغیرہ۔ غرض خلاصہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ کے افعال و احکام کی تعلیل میں اختلاف کا امامت کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ اکثر اہل سنت تعلیل و حکمت کے اثبات کے قائل ہیں ۔ البتہ اہل سنت میں سے جنھوں نے اس بات کا انکار کیا ہے، ان کا استدلال دو باتوں سے ہے: ۱۔ اس سے تسلسل لازم آتا ہے کیونکہ رب تعالیٰ جب کسی فعل کو کسی علت کے لیے کرے گا تو وہ علت بھی حادث ہو گی اور ایک اورعلت کی محتاج ہو گی، کیونکہ یہ بات واجب ہے کہ ہر حادث کی ایک علت ہو اور اگر یہ سمجھا جائے کہ اِحداث بدون علت کے ہے تو علت کے اثبات کی ضرورت ہی نہ رہے اور یہ عبث نہ ہو گا اور احداث کا وجود علت کی بنا پر ہے تو پھر حدوثِ علت کی بابت قول حدوثِ معلول کی بابت قول کے جیسا ہو گا اور اس سے تسلسل لازم آتا ہے۔ ۲۔ ان کا دوسرا استدلال اس بات سے ہے کہ جو کسی علت کی بنا پر کوئی فعل کرتا ہے تو اس ذات کا استعمال بھی اسی علت سے ہو گا۔ کیونکہ اگر علت کا حصول اس کے عدم سے اولیٰ نہ ہو، تو وہ علت ہی نہ ہو اور غیر کے ساتھ مکمل ہونا ناقص بنفسہٖ ہوتا ہے اور یہ بات رب تعالیٰ کے حق میں ممتنع ہے۔ ان لوگوں نے معتزلہ اور ان کے ہم نوا شعبوں پر ایسا اعتراض کیا ہے جو ان کے اصول کی بنا پر انھیں