کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 138
’’اور جب ہم لوگوں کو رحمت چکھاتے ہیں وہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے، اس کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو اچانک وہ نا امید ہو جاتے ہیں ۔‘‘
اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ لوگوں کو جو کچھ خیر و بھلائی ملتی ہے؛ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر احسان فرماتے ہیں ۔ اور جو کچھ ان پر مصیبت آتی ہے؛ وہ ان کے گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اور یہ پوری گفتگو دوسری جگہ پر تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے۔
اور یہی حال حکمت کے بارے میں بھی ہے۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمت سے موصوف ہیں ۔ لیکن اس کی تفسیر میں اختلاف اور تنازعہ ہے۔
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حکمت کا افعال العباد سے متعلق اس کا علم ہے۔ کہ ان افعال کا ایسے ہی واقع ہوننا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے ۔ اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے صرف علم ارادہ اور قدرت کی صفات کو ثابت مانتے ہیں ۔
کیا افعال الٰہی معلل ہیں ؟:
مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ موصوف بالحکمت ہے۔مگر اس کی تفسیر میں ان کے مابین اختلاف ہوا ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک حکمت کے معنی یہ ہے کہ اسے افعال العباد کا علم ہے اور وہ حسب ارادہ ان کو وجود میں لاتا ہے۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے صرف علم ‘ ارادہ اور قدرت کی صفات کو ثابت مانتے ہیں ۔
جمہور اہل سنت کا خیال ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے خلق و امر میں حکیم ہے، حکمت سے مشیت علی الاطلاق مراد نہیں ، اگر ایساہوتا تو ہر صاحب ارادہ حکیم بھی ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں :
۱۔محمود ۲۔مذموم
اﷲ تعالیٰ کے خلق و امر میں جواچھے انجام کار اور بہترین نتائج پائے جاتے ہیں اسی کو حکمت کہتے ہیں ۔ان الفاظ میں حکمت کا اثبات معتزلہ اور ان کی موافقت رکھنے والے شیعہ کا قول نہیں ہے۔ بلکہ مسلمان گروہوں میں سے جمہور کا یہی قول ہے ۔مفسرین ‘محدثین ؛ صوفیاء؛ اہل کلام ‘ اور دوسرے لوگ یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ائمہ فقہاء احکام شریعت میں اللہ تعالیٰ کے لیے حکمت ‘ اور مصلحت کے اثبات پر یک زبان اور متفق ہیں ۔اس میں تنازعہ کرنے والے فقط تقدیر کے منکر اورکچھ دوسرے لوگ ہیں ۔ اور ایسے ہی اس کی تخلیق میں بندوں کے لیے جو مصلحتیں اور حکمتیں ہیں وہ معلوم شدہ ہیں ۔
پہلے نظریہ کے قائلین جہم بن صفوان اور اس کی موافقت رکھنے والے مثلاً ابو الحسن اشعری اور ان کے ہم خیال فقہاء ‘ امام مالک ‘ امام شافعی ‘ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے اصحاب کا قول ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ :
[1]
[1] صحیح بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب ما جاء فی قول اللّٰہ تعالیٰ﴿ وَ ہُوَ الَّذِیْ یَبْدَئُ الْخَلْق....﴾ (ح:۳۱۹۴) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ۔ باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ (ح:۲۷۵۱)۔