کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 137
سے روایت ہے اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’ اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو........ اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔‘‘ [1] اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾[النِساء:79] ’’آپ کو جو بھلائی پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے۔‘‘ یعنی تمہیں جو بھی اچھائی ملتی ہے؛ جسے تم لوگ پسند کرتے ہو؛ جیسے فتح و نصرت؛ رزق وغیرہ۔ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی تم پر انعام کرتے ہیں ۔ اور جو کچھ تمہیں آزمائش آتی ہے جسے تم نا پسند کرتے ہو؛ تو وہ بھی تمہارے گناہوں کی اور غلطیوں کی وجہ سے ہے۔ نیکیاں اور بدیاں یہاں پر ان سے مراد نعمتیں اور مصائب ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے: ﴿ وَبَلَوْنَاہُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّـئَاتِ ﴾ (الاعراف:۱۶۸) ’’ہم نے ان کو بھلائی و عافیت اور تکلیفات سے آزمایا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ﴾ (التوبہ:۵۰)۔ ’’اگر تجھے آرام پہنچتا ہے تو انہیں برا محسوس ہوتا ہے۔‘‘ مزید ارشاد فرمایا: ﴿ اِنْ تَمْسَسْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا﴾(آل عمران: ۱۲۰) ’’اگر تمہیں خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو انہیں برا محسوس ہوتا ہے اور اگر تمھیں تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں ۔‘‘ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ﴿وَ اِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْابِھَا وَ اِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ اِذَاھُمْ یَقْنَطُوْنَ ﴾[الرومِ: 36]
[1] مسلِم۴؍۱۹۹۴۔کتاب البِرِ والصِلۃِ والآدابِ، باب تحرِیمِ الظلمِ ؛ سنن التِرمِذِیِ۴؍۶۷۔کتاب صِفۃِ القِیامۃِ، باب۱۵؛حدِیث رقم۲۶۱۳۔ سنن ابن ماجہ ۲؍۱۴۲۲۔