کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 136
پس اس گروہ کو ایمان کے لیے خاص کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کو علم و قوت اور صحت و جمال اور مال میں مزید عنایت سے بہرہ ور کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا﴾[الزخرفِ: 32 ] ’’کیا وہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ہم نے ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں بلند کیا، تاکہ ان کا بعض، بعض کو تابع بنالے‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے دو اشخاص میں سے کسی ایک کو قوت کے ساتھ خاص کیا ہو؛ اور اس کے ساتھ ہی ایسی طبیعت دی ہو؛ جو کہ عمدہ اور مناسب غذا کا تقاضا کرتی ہے؛ تو اسے اس چیز کے ساتھ خاص کیا ہے جو اس کی صحت و عافیت کے لیے مناسب ہے ۔اور جب دوسرے کو یہی چیز نہیں ملتی؛ اور اس میں نقص آتا ہے۔ اور کمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ یا بیمار ہوجاتا ہے۔ ظلم تو یہ ہوتا ہے کہ : کسی چیز کو ایسی جگہ پر رکھا جائے جو اس کے لیے مناسب نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ تو کبھی بھی کسی ایسے کو سزا نہیں دیتے جو اس کا مستحق نہ ہو۔ وہ کبھی بھی احسان کرنے والے کو سزانہیں دیتے۔ ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے اور اس کو رات اور دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی ہے اور آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے دیکھا کہ جب سے آسمانوں اور زمین کو اللہ نے پیدا کیا ہے کس قدر خرچ کیا ہے اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے اس میں کمی نہیں ہوئی اور فرمایا کہ اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے کہ کسی کے لئے اس کو جھکا دیتا ہے اور کسی کے لئے اونچی کر دیتا ہے۔‘‘ [1] پس اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ عدل بھی کرتے ہیں احسان بھی کرتے ہیں ۔ اور اس کا فعل عدل اور احسان سے باہر نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ صرف اسی کو سزا دیتا ہے جو اس کا مستحق ہو؛ نیز نیکوکار کو کبھی عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔اسی لیے یہ مثل مشہور ہے: ’’کُلُّ نِعْمَۃٍ مِّنْہُ فَضْلٌ وَکُلُّ نِقْمَۃٍ مِنْہُ عَدْلٌ۔‘‘ ’’ ہراحسان اس کا فضل ہے اور ہر سزا اس کا عدل ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے سزا دیتے ہیں ۔ اور ان پر اس کی نعمتوں کا ہونااس کا احسان محض ہے ۔ جیسا کہ صحیح حدیث قدسی میں ہے: ’’ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
[1] البخارِی9؍122۔ِکتاب التوحِیدِ ؛ مسلِم 3؍690 ۔کتاب الزکاۃِ، باب الحثِ علی النفقۃِ؛ سنن ابن ماجہ 1؍71۔المقدِمۃ، باب فِیما أنکرتِ الجہمِیۃ۔