کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 132
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی [بارہ ائمہ]ائمہ اثنا عشر کا تعلق ہے ان سے لوگ اسی طرح مستفید ہوتے رہے جیسے ان جیسے دیگر علماء و فضلاء کی تعلیم و علم ‘بیان حدیث؛ اور افتاء سے ۔البتہ اولی الامر ذوسلطان سے جو منفعت مطلوب ہوتی ہے وہ ان ائمہ میں سے کسی ایک سے بھی حاصل نہ ہو سکی۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ابن المطہر نے جس عنایت ربانی کا ذکر کیا ہے، وہ دجل و فریب کی کرشمہ سازی ہے اور بس۔
اللہ تعالیٰ کے عدل اور حکمت کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ:
چوتھی بات: [الزام]: ابن المطہر کا یہ عقیدہ کہ:’’ اہل سنت ذات باری تعالیٰ کے لیے عدل و حکمت کا اثبات نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں اﷲ تعالیٰ افعال قبیحہ اور اخلال بالواجب کا مرتکب ہو سکتا ہے۔‘‘
[جواب]: (یہ بات ) دو لحاظ سے باطل ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ بہت سے اہل سنت والجماعت جوخلافت کے بارے میں منکر نصوص ہیں ؛ اور بارہ اماموں کو بھی نہیں مانتے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے لیے عدل و انصاف کا اثبات ایسے ہی کرتے ہیں جیسا کہ شیعہ مصنف کی تحریرمیں بیان ہوچکاہے۔مصنف اور اس کے شیوخ اور دیگر لوگوں نے یہ عقیدہ معتزلہ سے لیا ہے۔ متاخرین روافضہ بھی اس عقیدہ میں ان کے ہم نوا بن گئے ہیں ۔پس اس عقیدہ کو تمام اہل سنت والجماعت کی طرف منسوب کرناسوائے شیعہ کے ‘ یہ اس مصنف کی طرف سے ایک جھوٹی بات ہے ۔
دوسری وجہ : وہ تمام اہل سنت والجماعت جو تقدیر کا اقرار کرتے ہیں ‘ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ عادل نہیں ‘یا پھرحکیم نہیں ۔ اور ان میں سے کوئی ایک ترک واجب کے جواز کا بھی نہیں کہتا۔ اور کوئی بھی اسے قبائح کا مرتکب نہیں ٹھہراتا۔ ، اہل اسلام میں جو شخص علی الاطلاق ایسا عقیدہ رکھتا ہو اور وہ بالاتفاق مباح الدم ہے۔ لیکن مسئلہ قدر اور اس طرح کے دیگر مسائل میں مسلمانوں کے مابین اختلاف بڑا مشہور و معروف ہے۔
مسئلہ تقدیراور شیعہ امامیہ :
[تقدیر کا مسئلہ متنازع فیہا ہے]۔ جب کہ قدر کی نفی کرنے والے جیسے معتزلہ اور ان کے ہم نوا؛ان کا وہی عقیدہ ہے جو متاخرین امامیہ کاہے۔جب کہ قدر کوثابت کرنے والے جمہورائمہ اہل اسلام صحابہ و تابعین اور اہل بیت اور دوسرے لوگوں کے مابین یہ امر اختلافی ہے کہ خداوندی عدل و حکمت اور اس ظلم سے کیا مراد ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا منزہ ہونا ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے افعال و احکام کے معلل ہونے میں بھی اختلاف ہے:
۱۔ ایک گروہ کا نقطۂ نظریہ ہے کہ اﷲ سے ظلم کا صدور ممکن نہیں اور وہ جمع بین الضدین کی طرح ذات باری کے لیے محال لذاتہ ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو چیز ممکن ہو اور قدرت الٰہی کے دائرہ میں داخل ہو اسے ظلم سے