کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 131
’’ اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی چھین کر لے لیتا تھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ ﴾ [البقرۃ ۲۵۸]
’’کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، اس لیے کہ اللہ نے اسے حکومت دی تھی۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے بعض کفار کو بھی بادشاہی نصیب کی تھی جیسا کہ بعض انبیائے کرام علیہم السلام کو اس نعمت سے نوازا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان ائمہ میں سے کسی ایک کو اللہ تعالیٰ نے حکومت نہ ایسے عطا کی تھی جیسے انبیاء کرام علیہم السلام اوردوسرے نیک لوگوں کو دی تھی۔اور نہ ہی ایسے عطا فرمائی جیسے دوسرے بادشاہوں کو عطا کی تھی۔تو پھر یہ قول باطل ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ائمہ کو اس لیے مقرر فرمایا تھا کہ یہ لوگوں کے سیاسی امور کو نبھائیں ۔
اگریہ کہا جائے کہ:’’ تقرر ائمہ کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں پر ان کی اطاعت ضروری قرار دی جائے۔ جو ان کا اطاعت شعار ہوتا ہے وہ اسے ہدایت سے بہرہ اندوز کرتے ہیں ‘مگر لوگ ان کی نافرمانی کرتے تھے۔‘‘
اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ :’’تو پھر اس سے عالم ارضی میں کوئی عنایت اور رحمت حاصل نہیں ہوئی؛ بلکہ الٹاان کی معصیت اور تکذیب حاصل ہوئی ہے‘‘۔
باقی رہا امام منتظرکا مسئلہ ! تو اس امام پر ایمان رکھنے والے بھی اس سے کوئی نفع اندوز نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں کوئی لطف و مہربانی حاصل ہوئی۔حالانکہ وہ اس سے محبت ودوستی رکھتے ہیں ۔تو معلوم ہوا کہ اس عقیدہ سے نہ ہی کوئی لطف و مہربانی حاصل ہوئی اور نہ ہی کوئی فائدہ ؛ نہ اس امام کے ماننے والے کے لیے اور نہ انکار کرنے والے کے لیے۔‘‘
اس سے ان کے عقیدہ کا بطلان ثابت ہوگیاکہ کائنات میں لطف و مہربانی اور رحمت امام معصوم کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں ۔اور یہ بات ضرورت کے تحت معلوم ہے کہ اس امام کی وجہ سے کائنات میں کوئی لطف و مہربانی حاصل نہ ہوسکی ؛ نہ ہی اس امام پر ایمان رکھنے والوں کو کچھ ملا اور نہ ہی اس کا انکار کرنے والوں کا کوئی نقصان ہوا۔ بخلاف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کے ؛ کہ جب کوئی قوم کسی رسول کو جھٹلاتی ہے[توانہیں نقصان ہوتا ہے] ۔ بیشک رسولوں سے ان لوگوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے جو ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔ تواس لحاظ سے نبی کاوجوداس پر ایمان لانے والوں اور اطاعت گزاروں کے حق میں رحمت ہوا کرتا تھا۔ جب کہ نافرمان حد سے گزرا ہوا سرکش ہوتا ہے[اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ]۔
جب کہ اس امام سے نہ ہی کسی مؤمن کو کوئی فائدہ حاصل ہوا اورنہ ہی کسی کافر کو۔