کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 127
کرتے۔ ان کی رائے میں اﷲ تعالیٰ افعال قبیحہ اور اخلال بالواجب کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کے افعال معلل بالاغراض نہیں ، بلکہ حکمت و مصلحت سے یکسر خالی ہیں ۔ بقول ان کے اﷲ تعالیٰ ظلم و عبث کا مرتکب ہوتا ہے، اور وہ کام نہیں کرتا جو بندوں کے لیے زیادہ مناسب ہوں ؛ بلکہ ایسے کام کرتا ہے جو حقیقت میں فساد ہیں ؛ اس لیے کہ وہ گناہ کے کام ہیں ۔ اورکفر و ظلم کی انواع و اقسام اور معاصی و کفریات بھی انجام دیتا ہے۔ کرۂ ارضی پر جس قدر فسادات رونما ہوتے ہیں وہ سب اس کی طرف منسوب ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے بہت بلند ہے۔ بقول اہل سنت اطاعت کنندہ ثواب کا مستحق نہیں اور عاصی عذاب کا استحقاق نہیں رکھتا۔بلکہ بعض اوقات ساری عمر اس کی اطاعت کرنے والوں اور اس کے احکام بجالانے والوں کو بھی عذاب میں مبتلا کرتاہے؛ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اورساری زندگی ہر قسم کی نافرمانی کرنے والوں کو ثواب و جزاء دیتا ہے؛جیسے ابلیس و فرعون کو۔ انبیاء علیہم السلام معصوم نہیں بلکہ ان سے خطا اور فسق و کذب کا صدور ممکن ہے۔ اور بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے امامت کی وصیت نہیں کی بلکہ بلاوصیت فوت ہوگئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بقول اہل سنت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول ہوئے۔ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ اور چار دیگر صحابہ یعنی ابو عبیدہ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ، اسید بن حضیر اور بشیر بن سعد نے آپ کی بیعت کر لی تھی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ ثانی مقرر کیا۔ بعد ازاں عمر رضی اللہ عنہ نے چھ اشخاص کو خلافت کیلئے منتخب کیا ان میں سے بعض نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے چن لیا۔پھر لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور آپ خلیفہ قرار پائے۔[1] اس کے بعد اہل سنت کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی امامت کے قائل ہیں اور بعض معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کرتے ہیں ، اہل سنت کے نزدیک خلیفہ سفاح عباسی کے ظہور تک خلافت بنو امیہ میں ہی رہی۔پھر اس کے بعد خلافت اس کے بھائی منصور کے پاس چلی گئی۔ اور پھر اس کے بعد مستعصم تک خلافت کو بنی عباس
[1] اس سے معلوم ہوا کہ کسی نے آپ کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چھٹے روزحضرت علی رضی اللہ عنہ نے منبر پر جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’ لوگو! میں تمہاری اجازت سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ (امامت و خلافت) تمہارا ذاتی معاملہ ہے اس میں کسی کو مداخلت کا حق حاصل نہیں بجز اس کے کہ تم کسی کو امیر مقرر کر دو، قبل ازیں اس ضمن میں ہمارے مابین اختلاف رونما ہو چکا ہے، اگر تمہیں (میرا خلیفہ ہونا) پسند ہے تو میں (مسند خلافت پر) بیٹھ جاؤں گا، ورنہ میں کسی پر اظہار ناراضگی نہیں کرتا، اس واقعہ کی تفصیلات تاریخ طبری (۵؍ ۱۵۶، ۱۵۷) پر ملاحظہ فرمائیے،حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد : ’’ کہ کسی کو مداخلت کا حق نہیں ۔‘‘ اس پوری عمارت کو منہدم کر دیتا ہے، جو شیعہ نے ۱۳ صدیوں سے آج تک تعمیر کر رکھی ہے، دیکھئے (العواصم من القواصم: ۱۴۲،۱۴۳)