کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 126
فصل اوّل: مسئلہ امامت میں مختلف مذاہب شیعہ مصنف ابن المطہر مسئلہ امامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’پہلی فصل:.... مسئلہ امامت میں لوگوں کے مذاہب ۔ ’’امامیہ کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ عادل و حکیم ہیں [ظالم نہیں ]۔ وہ افعال قبیحہ کا ارتکاب نہیں کرتااور نہ ہی واجب میں خلل ڈالتا ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے افعال بنا بر حکمت صحیح غرض کے لیے واقع ہوتے ہیں ۔اوروہ ظلم نہیں کرتا۔اورنہ ہی کوئی بیکار کام کرتا ہے۔ وہ بندوں پر بڑا مہربان ہے اور وہی کام کرتا ہے جو ان کے لیے سود مند اور بہتر ہو ۔اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بغیر سختی کے اختیار دیاہے۔اور اپنے انبیاء کرام و معصوم رسولوں کی زبانی انہیں ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے اور عذاب سے انہیں ڈرایا ہے۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام سے خطاء یا بھول یا گناہ کا سرزد ہونا جائز نہیں ۔ورنہ ان کے اقوال و افعال کا اعتبار نہ رہتا؛ اور ان کی بعثت کا فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ ‘‘ سلسلہ تحریر کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امامت کا سلسلہ جاری کیا اور معصوم اولیاء مقرر کیے تاکہ لوگ غلطی ؛سہو و خطا سے مامون رہیں ۔ اوران اماموں کی اطاعت کرتے رہیں تاکہ یہ عالم ارضی لطف و عنایت ربانی سے خالی نہ رہے۔ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو آپ رسالت کی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ اور اس امر کی تصریح کر دی کہ آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔ پھر حسب ذیل خلفاء علی الترتیب ظہور پذیر ہوں گے: ۱۔حسن بن علی ۲۔حسین بن علی ۳۔علی بن حسین ۴۔محمد (باقر) ۵۔جعفر (صادق) ۶۔موسیٰ بن جعفر ۷۔علی بن موسیٰ ۸۔محمد بن علی جواد ۹۔علی بن محمد ھادی ۱۰۔حسن بن علی عسکری ۱۱۔محمد بن حسن ۔ سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم امامت کی وصیت کرنے کے بعد فوت ہوئے۔‘‘ بخلاف ازیں اہل سنت ان جملہ امور کے قائل نہیں ۔وہ اﷲ کے لیے عدل و حکمت کا اثبات نہیں