کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 125
اہل علم نسب دانوں نے ذکر کیا ہے۔ امام غائب کے عقیدہ کا ابطال: شیعہ کہتے ہیں : امام زمان اپنے والد کی وفات کے بعد اس سرداب میں داخل ہوگیا تھا‘ اس وقت اس کی عمر دو سال یا پھر تین سال یا پھر پانچ سال تھی۔ [شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام منتظر دویا تین یا پانچ سال کی عمر میں تہ خانہ میں داخل ہوا] نظر بریں [اس وقت وہ امام بنص قرآنی ] یتیم ہو گا ؛جس کی تربیت اور مال کی حفاظت نص قرآنی کی بنا پر ضروری ہے یہاں تک کہ اس پر عقل مندی کے آثار نظر آنے لگیں ۔اور اس کا کوئی مستحق قرابت دار اسے گود پالے گا [اورتربیت و پرورش کا اہتمام کریگا]۔ جب اس کی عمر سات سال کی ہوجائے تو اسے طہارت اور نماز کی ادائیگی کا حکم دیا جائے گا۔ غور فرمائیے! جس نے ہنوز نہ وضوء کیا نہ نماز ادا کی؛ اور اگر وہ شاہداور موجود بھی ہوتا تو از روئے نص قرآنی وہ خود اور اس کا مال و اسباب اس کے کسی ولی کی نگہداشت میں ہوتے۔ (اور ولی کی اجازت کے بغیر اسے تصرفات کی اجازت نہ ہوتی) تو پھر ایسے شخص کا اہل ایمان کا امام ہونا کیوں کر جائز ہو سکے گا؟ [یہ تو اس صورت میں ہوتا جب امام موجود ہوتا ] اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگیا جب امام اتنی لمبی مدت سے مفقود یا معدوم ہو۔ جب کسی عورت کا ولی زیادہ مدت کے لیے غائب ہوجائے تو قاضی یا موجود ولی اس کی شادی کراسکتا ہے تاکہ اس عورت کے معلوم اورموجود ولی کے لمبا عرصہ تک غائب رہنے کی وجہ سے مصلحت فوت نہ ہو۔ توپھر امامت کی مصلحت کیسے حاصل ہوسکتی ہے جب کہ امام اتنے لمبے عرصہ سے غائب اور مفقود ہو؟ [اتنی طویل مدت میں کوئی امام کیوں نہ مقرر کیا گیا اور امامت کی مصلحت کو کیوں کر پیش نظر نہ رکھا گیا؟][1]
[1] مورخ ابن جریر طبری ۲۰۲ھ کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسب و نسب کا ایک جھوٹا دعویٰ دار حیلہ جوئی کر کے خلیفہ المقتدر عباسی کے دربار میں حاضر ہوا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ محمد بن حسن بن علی بن موسیٰ بن جعفر ہے، خلیفہ نے بنی ہاشم کے مشائخ کو بلایا؛ان کا سردار ان دنوں احمد بن عبدالصمد تھا جو ابن طومار کے نام سے مشہور تھا۔ ابن طومار نے کہا کہ حسن کی کوئی اولاد نہ تھی، پھر تم محمد بن حسن کیسے ہوگئے؟ بنی ہاشم چلا چلا کر کہنے لگے کہ اسے سخت سزا دے کر لوگوں میں اس کی تشہیر کی جائے۔ چنانچہ اسے ایک اونٹ پر سوار کر کے ذوالحجہ کی آٹھویں اور نویں تاریخ کو شہر کی دونوں جانب میں پھرا کر مغربی جانب ایک قید خانہ میں قید کر دیا گیا۔ طبری کے ذکر کردہ واقعہ میں قابل غور بات ابن طومار کا یہ قول ہے کہ حسن عسکری نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ یہ قول ان لوگوں کے قول سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ حسن عسکری کی لونڈی نرگس کے یہاں آپ کی زندگی میں یا بعد از موت ایک بچہ پیدا ہوا تھا۔ حسن عسکری کا بھائی جعفر بن علی بن موسیٰ باقی لوگوں کی نسبت آپ کا نہایت قریبی تعلق دار تھا۔ حسن عسکری کی وفات کے بعد اس نے سب ترکہ خود لے لیا تھا۔ اس لیے کہ دوسرا کوئی شخص ان کا وارث نہ تھا، جعفر بن علی نے ان کی لونڈی کو بھی روکے رکھا تھا اور اس وقت اجازت دی جب پتہ چل گیا کہ ان میں سے کوئی بھی حاملہ نہیں ۔ تاریخ کے اوراق ایسی شخصیت سے آشنا نہیں جسے حسن عسکری کی اولاد کہا جا سکے۔ گر وہی تعصب کی بنا پر یہ دعویٰ کرنا الگ بات ہے کہ وہ تاحال بقید حیات ہے۔کچھ بعید نہیں کہ اس (افسانے) کے آغاز کا حقیقت سے اتنا ہی تعلق ہو جتنا اس کے انجام کا ہے۔ ’’سبحانک یا واھب العقول‘‘