کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 124
مطلب یہ ہے کہ ان سے دین کا اہم ترین اور اشرف ترین حصہ چھوٹ گیا۔ تو اس صورت میں باقی مسائل عقیدہ توحید اور عدل بھی ان کے کچھ کام نہ آسکے۔اس لیے کہ بہ نسبت مقصود ِامامت کے ان میں نقص پایا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس وجہ سے وہ عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ شیعہ امامیہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ امامت کی ضرورت صرف شریعت کی فروعات میں ہوتی ہے اصول میں نہیں ۔ جب کہ اصول عقلیہ میں امام کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ دینی اصول و قواعد اہم و اشرف ہوتے ہیں ۔اس تمام کلام کے بعد امامت کے متعلق تمہارا عقیدہ راہ حق سے سب سے زیادہ دور ہے ۔اگر اس میں سوائے اس کے اور کچھ بھی نہ ہوتا کہ تم نے امامت کودین ودنیا میں مخلوق کی مصلحت کے لیے واجب قراردیا ہے۔اور تمہارے اس امام زمانہ کے ذریعہ ابھی تک کوئی مصلحت حاصل نہیں ہوئی؛ نہ ہی دین میں اور نہ ہی دنیا میں ۔ اب بتائیے اس شخص کی جد و جہد سے زیادہ بیکار کوشش کس کی ہوگی جو اطاعت ائمہ میں بڑی زحمت اٹھاتا، اکثر قیل و قال سے کام لیتا، مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوتا، سابقین اولین [صحابہ و تابعین ]پر لعنت بھیجتا اور کفار و منافقین کا دست راست بنا رہتا ہے۔ بایں ہمہ وہ حیلہ گری سے بھی نہیں چوکتا، دشوار گزار راستوں پر گامزن ہوتا، جھوٹی شہادت سے تقویت حاصل کرتا اور اپنے پیروکاروں کو فریب دہی سے پھانستا رہتا ہے۔اور ایسی ایسی حرکات کا ارتکاب کرتا ہے جن کا یہاں پر ذکر کرنا طوالت اختیار کرجائے گا۔ [1]اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ایک امام کا وجود از بس ضروری ہے جو احکام الٰہی سے آگاہ کرتا رہے۔اور وہ چیزیں بیان کرے جن سے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی ہو۔ پھر جب اس امام کے نام و نسب کا علم ہوگیا تو اس سے کوئی بھی مطلب کی بات حاصل نہ ہوسکی۔ اور نہ ہی اس کی تعلیمات اور رہنمائی کی باتوں میں سے کوئی بات اس کے ماننے والوں تک پہنچ سکی۔اور نہ ہی اس کے اوامر و نواہی کا پتہ چل سکا۔ اور نہ ہی امام سے کوئی مصلحت و منفعت حاصل ہوئی؛ بجز جان و مال کے نقصان کے۔اوراس کے کہ وہ انسان حسرت و ندامت کا شکار ہو، خطا کا مرتکب ہو ، دور دراز سفر میں مبتلا رہ کر دن رات امام غائب کا منتظر رہے۔ اور تہ خانہ میں داخل ہونے والے ایک امام کی وجہ سے امت محمدی سے بغض و عداوت کا سلوک روا رکھے۔ حالانکہ اس امام نے نہ کوئی کام کیا اور نہ اسکی زبان سے ایک لفظ صادر ہوا۔ مزید برآں اگر امام مذکور کا وجود یقینی ہوتا تو بھی شیعہ کو ان سے کوئی فائدہ نہ پہنچتا۔ امت کے دانش مند لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ شیعہ کے یہاں افلاس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مزید برآں حسن بن علی عسکری کے یہاں سرے سے کوئی اولاد ہی نہ تھی اورنہ اس نے اپنے پیچھے کوئی وارث چھوڑا ہے ۔ جیسا کہ مورخ ابن جریر طبری اور عبدالباقی بن قانع وغیرہ
[1] ردّشیعہ کا سلسلہ جاری ہے، یہ رد بلا دلیل نہیں بلکہ ان کے تاریخی دلائل وہ شواہد موجود ہیں ، علاوہ ازیں خود شیعہ کی تصنیفات میں ایسے حقائق کی کمی نہیں اگر عمر و وقت میں گنجائش ہو تو شیعی تصنیفات میں سے مواد لے کر ضخیم مجلدات تحریر کی جا سکتی ہیں ۔