کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 123
ہے ‘ وہ اس معنی پر دلالت نہیں کرتا۔ بلکہ الفاظ کے مفہوم کا تقاضا ہے کہ یہ مسئلہ مطلق طور پر دین کے اہم ترین مطالب اور مسلمانوں کے اشرف ترین مسائل میں سے ہے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ فرض کریں :تمہاری کی مرادیہی تھی ؛ تو اس لحاظ سے بھی اس کا معنی باطل ہوا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس سے اشرف اور اہم ترین مسائل میں مسلمانوں کا اختلاف واقع ہوا ہے۔اگر مان لیا جائے کہ یہی مطلب اشرف مطالب میں سے ہے؛ تو پھر جو کچھ تم نے پہلے بیان کیا ہے ‘ وہ باطل ترین مذاہب اور فاسد تر مطالب میں سے ہے۔اس لیے کہ مسئلہ امامت میں اختلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور سے پہلے پیش نہیں آیا۔ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں یہ اختلاف پیدا نہیں ہوا تھا۔سوائے جو کچھ سقیفہ کے دن سامنے آیا۔اس دن لوگ اس وقت تک وہاں سے اٹھے نہیں جب تک ان کا اس مسئلہ پر آپس میں اتفاق نہیں ہوگیا۔ ایسی باتوں کو نزاع شمار نہیں کیا جاتا۔ اور اگر مان لیا جائے کہ اس مسئلہ میں نزاع و اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوگیا تھا؛ تو ہر وہ مسئلہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد اختلاف پیدا ہوگیا ہو‘ وہ ان دیگر مسائل سے افضل و اہم تر نہیں ہوسکتا جن میں اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے لمبے زمانے کے بعد پیدا ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ توحید و صفات کے مسائل ‘ اثبات و تنزیہ ‘ قدر و تعدیل ‘اسماء و تجویز ؛ تحسین‘ تقبیح کے مسائل امامت کے مسائل سے بڑھ کر اہم تراو راشرف تر ہیں ۔ ایسے ہی مسائل احکام و اسماء ؛ وعد و وعید ؛ شفاعت اور خلود فی النار کے مسائل امامت کے مسائل سے زیادہ اہم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عقائد کے بارے میں جتنے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں انہوں نے مسئلہ امامت کو آخر میں ذکر کیا ہے ۔ یہاں تک کہ خود امامیہ فرقہ کے لوگ مسئلہ امامت سے پہلے توحید ‘ عدل اور نبوت کے مسائل ذکر کرتے ہیں ۔ ایسے ہی معتزلہ کے ہاں پانچ اصول ہیں : توحید ؛ عدل ؛ منزلہ بین منزلتین ؛ وعید کا انفاذ اور پانچواں مسئلہ ہے : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ؛ امامت کے مسائل اسی مسئلہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ جمہور امت نے مسئلہ امامت کے بغیر بھی اس مقصود امامت کی بہت بڑی خیر حاصل کی تھی جس کا پرچار رافضی کررہے ہیں ۔اس لیے کہ امامیہ ایسے صاحب زمان امام کا عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ مفقود ہے؛ اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور وہ تقریباً دو سو ساٹھ ہجری میں سرداب سامراء میں داخل ہوگیا تھا۔اور اب تک چار سو پچاس [ہمارے دور میں بارہ سو] سال سے غائب ہے۔اس اتنی لمبی مدت کے دوران اس امام کی امامت سے شیعہ کو دین ودنیا کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔بلکہ وہ کہتے ہیں کہ : ’’ ہمارے پاس اس امام کے علاوہ دوسرے لوگوں سے منقول علم ہے ۔‘‘ اگر یہ مسئلہ دین کے اہم ترین مسائل میں سے تھا اور وہ لوگ اس سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہ کرسکے؛ تو اسکا