کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 121
سے ہاتھ نہ کھینچے۔‘‘[1] حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جن کے خلاف شریعت اعمال کو تم پہچان لوگے اور بعض اعمال نہ پہچان سکو گے۔ پس جس نے ان کے اعمال بد کو پہچان لیا وہ بری ہوگیا جو نہ پہچان سکا وہ محفوظ رہا لیکن جو ان امور پر خوش ہوا اور تابعداری کی وہ ہلاک ہوگیا ۔صحابہ نے عرض کیا:’’ ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ نہیں جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ۔‘‘[2] یہ بات واضح ہے کہ ائمہ سے مراد امراء اورحکمران ہیں ۔ان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کئی ایک بری اور مکروہ باتیں بھی ہوتی ہیں ۔لیکن کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ان کی اطاعت سے دست کیش ہوجائے ۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرے۔ اور یہ کہ ان حکمرانوں میں اچھے بھی لوگ ہوتے ہیں اور برے بھی ۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے لوگ محبت رکھتے ہیں ‘ اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں ؛ اور وہ لوگوں سے محبت رکھتے اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ حاکم ایسے بھی ہوتے ہیں ‘جو لوگوں سے بغض رکھتے اور ان کے لیے بد دعا کرتے ہیں ‘ اور لوگ بھی ان سے بغض رکھتے ہیں ‘ اور ان پر بد دعا کرتے ہیں ۔ صحیحین میں ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء علیہم السلام کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت کرلو اسے پورا کرو اور حکام کا حق ان کو ادا کروبے شک اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔‘‘[3] آپ نے خبر دی ہے کہ آپ کے بعد حکمران ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں گے۔اور پھر یہ حکم بھی دیا کہ ان کی بیعت کے ساتھ اول در اول کی بنیاد پر وفاداری برتی جائے۔اور ان کے حقوق ادا کئے جائیں ۔
[1] صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ باب خیار الائمۃ و شرارھم(حدیث:۱۸۵۵) [2] شیعہ کے گیارہ امام خود غیر معصوم ہونے کے معترف تھے، لوگوں نے ائمہ سے سن کر وہ دعائیں ذکر کی ہیں جن میں بارگاہ ایزدی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کیا کرتے تھے اگر وہ معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتے تو مغفرت طلب کرنے کی ضرورت لاحق نہ ہوتی، بارہواں امام بقول شیعہ نو عمری ہی میں تہ خانہ میں داخل ہو گیا نہ انہیں کسی نے دیکھا اور نہ ان سے کوئی دعا سن کر یاد رکھی، عصر حاضر تک کسی شخص نے ان کی آواز تک نہیں سنی۔ [3] صحیح مسلم امارت اور خلافت کا بیان : (ح:271)؛پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں ۔