کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 120
مالک ہے؛ مگر جب تک اس کو خاص متعین انسان کے مالک ہونے کا علم نہ ہو‘ تو وہ اس وقت تک اس کے مالک کو پہچاننے والا نہیں ہوسکتا ۔بلکہ یہی انسان اس کا عارف ہے ‘ کیونکہ اس پر احکام نسب و ملکیت مرتب ہوتے ہیں ۔ جب کہ امام منتظر کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اس کے کسی ایسے حال کی معرفت نہیں ہوسکی جس سے امامت میں فائدہ ہوتا۔ بیشک امام کی معرفت جس سے انسان جہالت سے معرفت کی طرف نکلتاہے ‘اور اس کے نتیجہ میں جماعت کی شیرازہ بندی اور اطاعت ممکن ہوتی ہے۔بخلاف اس چیز کے جس پر اہل جاہلیت تھے۔ اس لیے کہ ان کا کوئی امام نہیں تھا جس کے جھنڈے کے نیچے یہ لوگ جمع ہوتے۔اورنہ ہی ان کی شیرازہ بندی کے لیے کوئی جماعت تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ‘اور آپ کے ذریعہ سے ان لوگوں کو اطاعت گزاری اور جماعت بندی کی طرف ہدایت دی ۔جب کہ اس منتظر کی معرفت سے نہ ہی اطاعت گزاری حاصل ہوئی اور نہ ہی جماعت بندی۔ اور ایسی کوئی معرفت حاصل نہ ہوسکی جس سے لوگ جاہلیت سے معرفت کی طرف نکلتے۔ بلکہ اس امام کی طرف منسوب لوگ باقی تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر جاہل اور اہل جاہلیت سے زیادہ مشابہت رکھنے والے ہیں ۔ حکمران کی اطاعت نیکی کے امور میں : نویں وجہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صرف ان ائمہ وسلاطین کی اطاعت کا حکم دیاہے جو موجود ہوں ، حکومت و سلطنت سے بہرہ ور ہوں اور لوگ انہیں عام طور سے جانتے ہوں ۔ مزید برآں ان کی اطاعت صرف معروف میں ضروری ہے منکر میں نہیں ۔ہمیں کسی مجہول اور معدوم کی اطاعت کا حکم ہر گز نہیں دیااور نہ ہی کسی ایسے کی اطاعت کا حکم دیا جس کا نہ کوئی بس چلتا ہو اور نہ ہی اسے اصل میں کوئی حکومت یا قدرت حاصل ہو۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آپس میں محبت کرنے اور اجتماعیت قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور تفرقہ بازی اور اختلاف سے منع کیا ہے۔ائمہ کی اطاعت کا حکم مطلق طور پر نہیں دیا ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے نافرمانی میں نہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کی اطاعت میں جن ائمہ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ‘ وہ معصوم نہیں ہیں ۔ صحیح مسلم میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ؛ فرماتے ہیں : میں نے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور جو تمہیں چاہتے ہوں تم ان کے حق میں دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں دعا کرتے ہوں ۔ تمہارے بد ترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اوروہ تم سے بغض رکھتے ہوں ، جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہوں ۔‘‘ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان کی بیعت توڑ نہ ڈالیں ؟ فرمایا: ’’جب تک وہ نماز کی پابندی کریں تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ آپ نے دو مرتبہ یہ الفاظ دہرائے:’’ جس پر کسی شخص کو حاکم بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے کوئی برا کام کرتے دیکھے تو اسے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھے مگر اس کی اطاعت