کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 119
شیعہ عرصہ دراز سے اطاعت امام سے نکل چکے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کی جماعت کو ترک کر دیا ہے۔
بخاری و مسلم میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے امیر کی کوئی ایسی بات دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو اس پر صبر کرے، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوتا ہے، اور اسی حالت میں مرجاتا ہے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔ ‘‘[1]
وفِی لفظِ: من رأی مِن أمِیرِہِ شیئا یکرہہ، فلیصبِر علیہِ فِإن من خرج مِن السلطانِ شِبرا مات مِیتۃ جاہِلِیۃ۔[2]
ان نصوص سے جہاں رافضیوں اور ان جیسے لوگوں کی حالت واضح ہوتی ہے ‘ وہیں پر یہ روایات اہل علم کے ہاں معروف بھی ہیں ۔[جب کہ وہ روایت جو روافض نے پیش کی ہے ‘ اس کی کوئی اصل نسل یا معروف قابل اعتماد سند نہیں ۔]
حدیث ان کے خلاف حجت :
آٹھویں وجہ: ان کی پیش کردہ روایت خود روافض کے خلاف حجت ہیں ۔اس لیے کہ یہ لوگ اپنے امام زمانہ کو نہیں پہچانتے ۔ یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ غائب منتظر محمد بن حسن عسکری ہے ۔ جوکہ ۲۶۰ ہجری میں سامراء کے غار میں چھپ گیا ‘اور ابھی تک واپس نہیں نکلا۔غائب ہونے کے وقت وہ امام دو یاتین یا پانچ سال کا بچہ تھا۔جو چار سو ساٹھ[اب بارہ سو] سال کی طویل مدت سے ایک تہ خانہ میں چھپا بیٹھا ہے؛ کسی شخص کو اس کا نشان وپتہ تک معلوم نہیں اور نہ اس کے متعلق کوئی خبر سنی گئی ہے۔ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اس امام کی ذات یا صفات کو جانتا ہو۔لیکن پھر بھی کہتے ہیں : وہ انسان جس کو نہ کوئی دیکھ سکا ‘اور نہ ہی کسی نے اس کی کوئی خبر سنی ‘ وہ ان کا امام زمانہ ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس طرح امام کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان کا قریبی چچا زادبھائی ہو مگر وہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا ہو۔ پس یہ انسان اپنے چچا زادتک کو نہیں جانتا ۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جیسے کسی انسان کو کوئی گرا پڑا مال مل جائے ‘ اس کو پتہ ہے کہ کوئی انسان اس کا
[1] صحیح بخاری کتاب الفتن ۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ سترون بعدی اموراً تنکرونھا‘‘ (ح:۷۰۵۴) صحیح مسلم ۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین(ح:۱۸۴۹)۔
[2] ....الحدِیث بِرِوایتیہِ ۔ مع اختِلاف یسِیر فِی الألفاظِ۔عنِ ابنِ عباس فِی: البخاری 9؍47 ِکتاب الفِتنِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سترون بعدِی أمورا تنکِرونہا؛ مسلِم 3؍1477 ۔ الکِتاب والباب السابِقان؛سنن الدارِمِیِ 2؍241۔کتاب السِیرِ، باب فِی لزومِ الطاعۃِ والجماعۃ؛ المسند ط. المعارِفِ 4؍164۔