کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 118
کرتے ہیں اس حدیث کی اگر ایک آدمی سے بھی نقل منقول ہو تو اس کی صحت ثابت کرو ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایمان کا رکن اس جیسی حدیث سے ثابت کیا جائے جس کے نقل کرنے والے کو کوئی نہ جانتا ہو۔ اوراگر اس کا ناقل معلوم بھی ہوجائے تو پھر بھی اس سے غلطی اور جھوٹ کا امکان رہتا ہے ۔ کیا کسی معقول علمی طریقہ کے بغیر بھی ایمان کا کوئی رکن ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس حدیث میں امامت پر دلیل نہیں : ساتویں وجہ : ان سے کہا جائے گا : اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مبنی ہے ۔ تو پھر بھی ان لوگوں کے لیے اس حدیث میں کوئی حجت نہیں ہے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے امور کے متعلق یہ جملہ ارشاد فرمایاہے :’’من مات میتۃ الجاہلیۃ‘‘ ’’ تووہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔‘‘ یہ ایسے امور کے متعلق ہے جو ایمان کا رکن نہیں اور جن کے ترک کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ صحیح مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من قتِل تحت رایۃ عِمِیّۃ یدعو عصبِیۃ، أو ینصر عصبِیۃ، فقِتلتہ جاہِلِیۃ۔‘‘[1] یہ کلام تعصب کی بنا پر لڑنے والوں کو بھی شامل ہے ۔اور شیعہ بنا بر تعصب لڑنے والوں میں سر فہرست ہیں ۔البتہ طرف داری کے نقطہ خیال سے لڑنے والے مسلمانوں کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ جیسا کہ کتاب و سنت اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ تو پھر جس انسان کا جرم اس سے کم تر ہو ‘ اسے کیسے کافر قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اگر وہ اطاعت امام سے نکل جائے اور جاہلیت کی موت مرے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔[2] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’جو شخص اطاعت امام سے خروج اختیار کرے اور جماعت کو ترک کر کے مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[3]
[1] عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبد اﷲ بن مطیع کے پاس آئے تھے، عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ عبداﷲ بن مطیع نقض بیعت کا جو اقدام کر رہا ہے وہ ظلم ہے جس کا مرتکب جاہلیت کی موت مرتا ہے، ابن مطیع کے ظلم کا نتیجہ یہ ہوا کہ یزید بھی اسی قسم کے ظلم پر اتر آیا، اہل عرب کے نزدیک ظلم کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز کو اسکی اصلی جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے۔ سیدھی راہ سے بھٹک جانے کو بھی ظلم کہتے ہیں ۔ ابن مطیع اور اس کے رفقاء کار کا ظلم وہ فتنہ سامانی ہے جس کا بیڑا انہوں نے واقعہ حرہ سے قبل اٹھایا اور یزید کا ظلم وہ افسوسناک نتائج ہیں جو اس سے رونما ہوئے۔ (منہاج السنۃ: ۳؍۱۸۵)۔ ٭ الحدِیث فِی: مسلِم3؍1478کتاب الِإمارۃِ، باب وجوبِ ملازمۃِ جماعۃِ(....وفِیہِ: فقِتلۃ جاہِلِیۃ. ورایۃ عِمِّیۃ: قال النووِی (شرح صحیح مسلم 12؍238))ہِی بِضمِ العینِ وکسرِہا لغتانِ مشہورتانِ. والمِیم مکسورۃ ومشددۃ والیاء مشددۃ أیضا. قالوا: ہِی الأمر الأعمی لا یستبِین وجہہ۔ کذا قالہ أحمد بن حنبل والجمہور. قال إِسحاق بن راہویہِ: ہذا کتقاتلِ القومِ لِلعصبِیۃِ. [2] حضرت جندب بجلی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’جو شخص عصبیت کی دعوت دیتا یا اس کا معاون ہو کر اندھا دھند لڑ رہا ہو اور وہ مارا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘‘مسلم کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح: ۱۸۵۰)۔ [3] صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (حدیث: ۱۸۴۸)۔