کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 117
زمانہ میں یزید بن معاویہ کے دور میں عبداﷲ[1] بن مطیع کے یہاں آئے تو انہوں نے خدام سے تکیہ لانے کے لیے کہا ۔حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں آپ کے یہاں بیٹھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک حدیث سنانے کے لیے آیا ہوں جوکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ میں نے سنا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ’’جس نے اطاعت ِامام سے ہاتھ کھینچ لیا وہ اﷲ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی، اور جس کی موت اس حال میں آئے کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[2] ترک بیعت: مذکورہ بالا حدیث حضرت عبداﷲبن عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت عبد اللہ بن مطیع سے بیان کی جب لوگوں نے امیر وقت یزید بن معاویہ کی بیعت توڑدی تھی؛حالانکہ وہ ظالم تھا،اور پھر ان کی آپس میں جنگ بھی ہوئی۔اور یزید نے اہل حرہ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ حدیث ہذا سے وہی مسئلہ مستفاد ہوتا ہے جو اس طرح کی دیگر تمام احادیث سے مستفاد ہوتا ہے۔کہ جو شخص حکام وقت کا مطیع نہ ہو یا شمشیر بکف ان کے خلاف نبرد آزما ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔شیعہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے، وہ جبرو اکراہ کے بغیر ہمیشہ امراء کی اطاعت سے منحرف رہتے ہیں ؛[3]اور حکمرانوں کی سب سے زیادہ مخالفت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ہم ان لوگوں سے مطالبہ
[1] عبداﷲ بن مطیع مدینہ منورہ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا داعی اور یزید کے برخلاف بغاوت کا اولیں محرک تھا، یہ پہلا شخص تھا، جس نے حاکم وقت یزید بن معاویہ کے خلاف جھوٹ کا طوفان کھڑا کیا، عوام بھی ان اکاذیب کی تصدیق کرنے لگے اور اس طرح مدینہ میں فتنہ پروری کا آغاز ہوا، محمد بن علی بن ابی طالب نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میں یزید کی صحبت میں رہا ہوں ، میں نے اسے نماز کا پابند نیکی کا پابند اور متبع سنت پایا لوگ اس سے فقہی مسائل دریافت کرتے تھے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ: ۸؍ ۲۳۳، نیز العواصم من القواصم: ۲۲۳) [2] صحیح مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح: ۱۸۵۱) [3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ سلاطین اسلام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی سلطان اچھا نہیں گزرا، جب آپ کے عہد خلافت کا تقابل بعد میں آنے والے سلاطین کے ادوار سے کیا جائے تو یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہیکہ ر عایا کو جو امن و عافیت آپ کے زمانہ میں نصیب ہوئی وہ کسی بادشاہ کے دور میں حاصل نہ ہوسکی، اور جب خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے مقابلہ کیا جائے تو خلافت راشدہ کی فضیلت نمایاں ہوتی ہے، عباسی خلافت کے زمانہ میں لوگ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد خلافت کو مثالی عدل کا دور کہا کرتے تھے، مشہور محدث سلیمان بن مہران اعمش ان سے کہا کرتے تھے اگر تم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت پا لیتے تو پھر کیا ہوتا؟ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بہتر تھا، لوگوں نے کہا کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے حلیم وبر دبار تھے؟ فرمایا: ’’ نہیں اﷲ کی قسم!وہ عدل میں بھی بے نظیر تھے ‘‘ یزید کا عہد خلافت بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے چنداں مختلف نہ تھا، اراکین سلطنت وہی تھے، جوحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھے، البتہ ہر حکومت کی ضروریات کا اندازہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، عبداﷲ بن مطیع نے محمد بن حنفیہ کے عین برعکس افتراء پردازی سے کام لیکر یزید کے خلاف جو اتہامات باندھے تھے ان کا نتیجہ اس فتنہ سامانی کی صورت میں ظہرو پذیر ہوا جس سے ڈرانے کیلئے حضرت (