کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 116
ارکان ایمان میں سے تھی اس کا بیان کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لازمی تھا تاکہ اہل ایمان کا ایمان درست ہو۔ جب یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کے لیے کوئی ایسی شرط نہیں رکھتے تھے ‘ تو یہ بات بھی پتہ چل گئی کہ ایمان کے لیے امامت کی شرط رکھنا اہل بہتان [جھوٹے لوگوں ] کا قول ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ: مسئلہ امامت اس نص کے عموم میں داخل ہے ‘ یا اس کا تعلق ایسے مسائل سے ہے جن کے بغیریہ واجب پورا نہیں ہوتا۔یا پھر کسی دوسری نص سے یہ ثابت ہے ۔ تو اس سے کہا جائے گا : ’’اگر ان تمام مسائل کی صحت ثابت بھی ہوجائے تو اس کی زیادہ سے زیادہ اہمیت یہ ہوگی کہ ان کا شمار دین کے فروعی مسائل میں ہوگا۔ اس کا شمار ارکان ایمان میں نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ ایمان کا رکن تو وہ ہوگا جس کے بغیر ایمان مکمل نہ ہوتا ہو‘ جیسے کہ شہادتین کا اقرار۔ کوئی انسان اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تو وہ اس بات کی گواہی نہ دیدے کہ : ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ‘ اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ فرض کرلیجیے کہ امامت ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن تھی ؛ جس کے بغیر کسی انسان کا ایمان پورا نہیں ہوسکتا؛ تو اس سے واجب ہوتاتھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت سے عذر کو ختم کرنے کے لیے اس کو کھول کر بیان کرتے ؛ جیسا کہ شہادتین کو ‘ اور ایمان بالملائکہ ‘ کتابوں پر ایمان ‘ رسولوں پر ایمان اور آخرت کے دن پر ایمان کو بیان کیا ہے ۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے ؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک کیساتھ بھی ایمان کے لیے امامت کی شرط نہیں لگائی ‘ نہ ہی مطلق طور پر اور نہ ہی مقید طور پر ۔ چھٹی وجہ:شیعہ مصنف نے یہ روایت پیش کی ہے:وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مَنْ مَّاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ إمام زمانہ مات میتۃ الجاہلیۃ‘‘ .... ’’ جس کی موت اس حالت میں آئی کہ وہ امام زمانہ کو نہ پہچانتا ہو‘ تو جاہلیت کی موت مرے گا ۔‘‘ جواب: ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ یہ روایت کس نے بیان کی ؟ اس کی اسناد کہاں ہے؟ اور پھر یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ ایسی حدیث سے استدلال کیا جائے جس کی سندہی ثابت نہ ہو۔ یہ تو اس وقت ہوتا ہے جب حدیث کی روایت میں کوئی مجہول الحال راوی نہ ہو۔ تو پھر اس وقت کیا کہہ سکتے ہیں جب وہ حدیث ان الفاظ سے کسی طرح بھی معروف ہی نہ ہو۔ اﷲ کی قسم !رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ یوں نہیں فرمائے ۔ البتہ مشہور و معروف حدیث صحیح مسلم میں حضرت نافع سے روایت ہے کہ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ واقعہ حرہ کے