کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 115
﴿لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ ( البقرہ ۱۷۷) ’’ نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اور اللہ سے محبت کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ، سوال کرنے والوں کو اور غلامی سے نجات دلانے کے لیے دے۔ نماز قائم کرے اور زکو اۃدا کرے۔ نیز ( نیک لوگ وہ ہیں کہ)جب عہد کریں تو اسے پورا کریں اور بدحالی ، مصیبت اور جنگ کے دوران صبر کریں ۔ ایسے ہی لوگ راست باز ہیں اور یہی لوگ سچے متقی ہیں ۔‘‘ یہاں پر بھی کہیں امامت کا کوئی ذکر تک نہیں کیا گیا ۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿الٓمّٓoذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَoالَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ oوَ الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ [البقرۃ] ’’الٓمٓ۔ اس کتاب کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں ؛اور ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیااور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت یافتہ اور کامیاب قرار دیا ہے ؛مگر امامت کا ذکر تک نہیں کیا ۔ [مذکورہ بالا آیات کے علاوہ متعدد آیات اس ضمن میں وارد ہوئی ہیں مگر کسی میں بھی امامت کے رکن ایمان ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا۔] اور ہم یہ بھی یقینی طور پر جانتے ہیں کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جب لوگ مسلمان ہوجاتے ہیں تو ان کے ایمان کو امامت کی معرفت پر موقوف نہیں رکھا جاتا ۔ اور نہ ہی امامت کے بارے میں کچھ ذکر تک فرمایا۔اور جو چیز