کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 113
اگر حب علی رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے گناہوں سے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا تو امام معصوم کی قطعاً ضرورت نہیں ۔اس لیے کہ تکلیف میں یہ مہربانی ہے۔ اگرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ہی تمام گناہوں کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے تو پھر کسی اور چیز کی کوئی ضرورت نہیں ‘خواہ امام موجود ہو یا نہ ہو۔ امامت ارکان ایمان میں شامل نہیں : پانچویں وجہ :.... شیعہ کا یہ قول کہ امامت ارکان ایمان میں سے ہے؛ جس کی بنیاد پرجنت میں رہنے کا استحقاق حاصل ہوسکتا ہے۔‘‘ [جواب]:.... تو ان سے کہا جائے گا کہ:امامت کو ارکان ایمان میں شمار کرنا اہل جہالت و بہتان تراشوں کاکام ہے۔ہم اس بارے میں ان شاء اللہ آگے اپنے موقع پر تفصیل سے بیان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین اور ان کے احوال بیان فرمائے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تفسیر کی؛ اور اس کی شاخیں بیان کیں ‘مگر امامت کا کہیں ذکر تک نہیں فرمایا۔صحیح روایات میں حضرت جبریل علیہ السلام والی حدیث بھی ہے ؛ جب آپ ایک اعرابی کی صورت میں آئے اور اسلام ؛ ایمان اور احسان کے بارے میں سوال کیا ‘ تو آپ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ اداکرو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو ۔‘‘ اور فرمایا: ’’ اور ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر پورا ایمان رکھو؛ اس کے فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان رکھو اور اللہ تعالی کی ملاقات کا یقین رکھو؛ قیامت اور حشر کو پورے طور پر مانو اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی جانب سے ہونے پر ایمان رکھو‘‘ ۔ اس میں امامت کا ذکر تک نہیں فرمایا: [ اس کے بعد پھر پوچھا کہ احسان کسے کہتے ہیں ؟] توآپ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو اتنا ہی یقین رکھے کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ [1] اس حدیث کے صحیح ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے ۔ اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہے ۔اہل علم کا اس کی صحتِ نقل پر اجماع ہے۔ امام بخاری و مسلم نے کئی اسناد کے ساتھ اسے روایت کیا ہے ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر ان کا اتفاق ہے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت صرف صحیح مسلم میں ہے۔ اگر چہ شیعہ ان احادیث کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے ‘[تو یہ ان کی پرانی روش ہے۔ منہاج الندامہ کے] مصنف نے اپنی کتاب میں ایسی احادیث بطور
[1] رواہ مسلم ۱؍۳۶؛ البخاری ۱؍۱۵۔