کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 112
انسان سے ایسی ہی باتیں بھی کرلیتا ہے جس کے متعلق اس کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اس کی یہ باتیں مان لے گا ۔اور بعض دفعہ وہ انسان اپنے وہم و خیال سے باتیں گھڑ لیتا ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہر زمانے میں ایک خضر ہوتا ہے اور بعض لوگ ہر ولی کو خضر کہتے ہیں ۔ یہود و نصاری نے بعض جگہیں مقرر کرر کھی ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پر خضر کو دیکھتے ہیں ۔خضر کومختلف صورتوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔کبھی اس کی صورت خوفناک بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ یہ جو دعوی کرتا ہے کہ وہ خضر ہے [یا پھر وہ شیطان ہوتا ہے۔ وہ جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے سامنے آجاتاہے]۔ اس بارے میں قصے بہت زیادہ ہیں جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔ بہر حال یہ لوگ شیعہ کی جملہ اقسام سے درجہا بہتر ہیں ‘ اس لیے کہ شیعہ ایسے امام کا انتظار کررہے ہیں جس کے بارے میں ان کے پاس کوئی مستند نقل ہی موجود نہیں ۔ [ان کی روایات کے مطابق ] جب یہ امام غار میں داخل ہوا تو اس وقت وہ ابھی سن ِ بلوغ کو نہیں پہنچا تھا۔پس رافضی ان لوگوں سے کئی گنا بڑھ کر جھوٹی روایات کو قبول کرتے ہیں مگر کتاب و سنت سے منہ موڑتے ہیں [ان پر عمل نہیں کرتے]۔ رافضی بہترین مسلمانوں پر قدح کرتے ہیں ‘ اور ان سے دشمنی رکھتے ہیں ۔رافضی امامت کی مصلحت کے متعلق لوگوں میں سب سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ ان کے اس عقیدہ کی وجہ سے ان سے بہت سارے دین کے اہم ترین اور اشرف ترین مقاصد فوت ہوچکے ہیں ۔ عمل صالح اور معرفت امام ....؟: چوتھی وجہ :ان سے کہا جائے گا کہ : تمہارا یہ کہنا کہ ’’ اسی [عقیدہ امامت کی]وجہ سے کرامت کے مراتب کا حصول ممکن ہے ۔یہ محض باطل کلام ہے ۔ صرف امام وقت کو پہچاننے یا دیکھنے سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی جب تک اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت نہ کی جائے ۔ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے امام کی معرفت بڑھ کر نہیں ہے۔ پس جو کوئی جانتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ‘ مگر وہ آپ پر ایمان نہ لائے ‘ اور آپ کے احکام کی پیروی نہ کرے ‘ اسے کوئی کرامت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اور جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ‘ مگر آپ کی نافرمانی کرے ؛ فرائض کو ضائع کرتا، ظلم و تعدی کا ارتکاب کرتا اور حدود شرعیہ سے تجاوز کرتا ہو؛ توایسا انسان سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ اس پر امامیہ اور دیگر تمام مسلمان گروہوں کا اتفاق ہے۔ توپھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جو کوئی امام کی معرفت حاصل کرے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کا ضائع کرنے والا ‘ اور حدود الٰہی کا پامال کرنے والا ہو [تو اسے کوئی کرامت یا بزرگی کیسے حاصل ہوسکتی ہے ؟]۔ بہت سارے شیعہ کا قول ہے : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایک ایسی نیکی ہے[1] جس کی موجودگی میں بدی سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔‘‘
[1] دیکھئے: اختصار تحفہ اثنا عشریہ : ۲۰۴۔